دبورہ اور برق کا گِیت
1اُسی دِن دبورؔہ اور ابی نُوؔعم کے بیٹے برق نے یہ گِیت گایا کہ
2پیشواؤں نے جو اِسرائیلؔ کی پیشوائی کی
اور لوگ خُوشی خُوشی بھرتی ہُوئے
اِس کے لِئے خُداوند کو مُبارک کہو۔
3اَے بادشاہو! سُنو۔ اَے شاہزادو! کان لگاؤ۔
مَیں خُود خُداوند کی سِتایش کرُوں گی
مَیں خُداوند اِسرائیلؔ کے خُدا کی مدح گاؤُں گی۔
4اَے خُداوند! جب تو شعِیر سے چلا۔
جب تُو ادُوم کے مَیدان سے باہر نِکلا۔
تو زمِین کانپ اُٹھی اور آسمان ٹُوٹ پڑا۔
ہاں بادل برسے۔
5پہاڑ خُداوند کی حضُوری کے سبب سے
اور وہ سِینا بھی خُداوند اِسرائیلؔ کے خُدا کی حضُوری کے
سبب سے کانپ گئے۔
6عنات کے بیٹے شمجر کے دِنوں میں
اور یاعیل کے ایّام میں شاہراہیں سُونی پڑی تِھیں
اور مُسافِر پگڈنڈیوں سے آتے جاتے تھے۔
7اِسرائیلؔ میں حاکِم مَوقُوف رہے۔ وہ مَوقُوف
رہے
جب تک کہ مَیں دبورہ برپا نہ ہُوئی۔
جب تک کہ مَیں اِسرائیلؔ میں ماں ہو کر نہ اُٹھی۔
8اُنہوں نے نئے نئے دیوتا چُن لِئے۔
تب جنگ پھاٹکوں ہی پر ہونے لگی۔
کیا چالِیس ہزار اِسرائیلِیوں میں بھی
کوئی ڈھال یا برچھی دِکھائی دیتی تھی؟
9میرا دِل اِسرائیلؔ کے حاکِموں کی طرف لگا ہے۔
جو لوگوں کے بِیچ خُوشی خُوشی بھرتی ہُوئے۔
تُم خُداوند کو مُبارک کہو۔
10اَے تُم سب جو سفید گدھوں پر سوار ہُؤا کرتے ہو
اور تُم جو نفِیس غالِیچوں پر بَیٹھتے ہو
اور تُم لوگ جو راستہ چلتے ہو۔ سب اِس کا چرچا کرو۔
11تِیر اندازوں کے شور سے دُور پنگھٹوں میں
وہ خُداوند کے صادِق کاموں کا
یعنی اُس کی حُکُومت کے اُن صادِق کاموں کا جو اِسرائیلؔ
میں ہُوئے ذِکر کریں گے۔
اُس وقت خُداوند کے لوگ اُتر اُتر کر پھاٹکوں پر گئے۔
12جاگ جاگ اَے دبورؔہ!
جاگ جاگ اور گِیت گا!
اُٹھ اَے برق اور اپنے اسِیروں کو باندھ لے جا۔ اَے
ابی نُوعم کے بیٹے!
13اُس وقت تھوڑے سے رئِیس اور لوگ اُتر آئے۔
خُداوند میری طرف سے زبردستوں کے مُقابلہ کے
لِئے آیا۔
14اِفراؔئِیم میں سے وہ لوگ آئے جِن کی جڑ عمالِیق
میں ہے۔
تیرے پِیچھے پِیچھے اَے بِنیمِین! تیرے لوگوں کے
درمیان
مکِیر میں سے حاکِم اُتر کر آئے۔
اور زبُولُون میں سے وہ لوگ آئے جو سِپہ سالار کا عصا
لِئے رہتے ہیں۔
15اور اِشکار کے سردار دبورؔہ کے ساتھ ساتھ تھے۔
جَیسا اِشکار وَیسا ہی برق تھا۔
وہ لوگ اُس کے ہمراہ جھپٹ کر وادی میں گئے۔
رُوبِن کی ندِیوں کے پاس
بڑے بڑے اِرادے دِل میں ٹھانے گئے۔
16تُو اُن سِیٹِیوں کو سُننے کے لِئے جو بھیڑ بکریوں کے
لِئے بجاتے ہیں۔
بھیڑ سالوں کے بِیچ کیوں بَیٹھا رہا؟
رُوبِن کی ندیوں کے پاس۔
دِلوں میں بڑا تردُّد تھا۔
17جِلعاد یَردؔن کے پار رہا
اور دان کشتِیوں میں کیوں رہ گیا؟
آشر سمُندر کے بندر کے پاس بَیٹھا ہی رہا
اور اپنی کھاڑیوں کے آس پاس جم گیا۔
18زبُولُون اپنی جان پر کھیلنے والے لوگ تھے
اور نفتالی بھی مُلک کے اُونچے اُونچے مقاموں پر اَیسا
ہی نِکلا۔
19بادشاہ آ کر لڑے۔
تب کنعاؔن کے بادشاہ تعناک میں
مجِدّو کے چشموں کے پاس لڑے
پر اُن کو کُچھ رُوپے حاصِل نہ ہُوئے۔
20آسمان کی طرف سے بھی لڑائی ہوئی
بلکہ ستارے بھی اپنی اپنی منزِل میں سِیسرا سے لڑے۔
21قِیسُون ندی اُن کو بہا لے گئی۔
یعنی وُہی پُرانی ندی جو قِیسُون ندی ہے۔
اَے میری جان! تُو زوروں میں چل۔
22اُن کے کُودنے۔ اُن زبردست گھوڑوں کے
کُودنے کے سبب سے
سُموں کی ٹاپ کی آواز ہونے لگی۔
23خُداوند کے فرِشتہ نے کہا کہ تُم مِیروز پر لَعنت
کرو۔
اُس کے باشِندوں پر سخت لَعنت کرو۔
کیونکہ وہ خُداوند کی کُمک کو
زورآوروں کے مُقابِل خُداوند کی کُمک کو نہ آئے
24حِبر قینی کی بِیوی یاعیل
سب عَورتوں سے مُبارک ٹھہرے گی۔
جو عَورتیں ڈیروں میں ہیں اُن سے وہ مُبارک ہو گی۔
25سِیسرا نے پانی مانگا۔ اُس نے اُسے دُودھ دِیا۔
امِیروں کی قاب میں وہ اُس کے لِئے مکّھن لائی۔
26اُس نے اپنا ہاتھ میخ کو
اور اپنا دہنا ہاتھ بڑھئِیوں کے میخ چُو کو لگایا
اور میخ چُو سے اُس نے سِیسرا کو مارا۔ اُس نے اُس کے سر
کو پھوڑ ڈالا
اور اُس کی کنپٹِیوں کو وار پار چھید دِیا۔
27اُس کے پاؤں پر وہ جُھکا۔ وہ گِرا اور پڑا رہا۔
اُس کے پاؤں پر وہ جُھکا اور گِرا۔
جہاں وہ جُھکا تھا وہِیں وہ مَر کر گِرا۔
28سِیسرا کی ماں کِھڑکی سے جھانکی اور چِلاّئی۔
اُس نے جِھلمِلی کی اوٹ سے پُکارا
کہ اُس کے رتھ کے آنے میں اِتنی دیر کیوں لگی؟
اُس کے رتھوں کے پہئے کیوں اٹک گئے؟
29اُس کی دانِش مند عَورتوں نے جواب دِیا
بلکہ اُس نے اپنے کو آپ ہی جواب دِیا۔
30کیا اُنہوں نے لُوٹ کو پا کر اُسے بانٹ نہیں لِیا
ہے؟
کیا ہر مَرد کو ایک ایک بلکہ دو دو کُنواریاں
اور سِیسرا کو رنگا رنگ کپڑوں کی لُوٹ
بلکہ بیل بُوٹے کڑھے ہُوئے رنگا رنگ کپڑوں کی لُوٹ
اور دونوں طرف بیل بُوٹے کڑھے ہُوئے رنگا رنگ
کپڑوں کی لُوٹ
جو اسِیروں کی گردنوں پر لدی ہو نہیں مِلی؟
31اَے خُداوند! تیرے سب دُشمن اَیسے ہی ہلاک
ہو جائیں۔
لیکن اُس کے پِیار کرنے والے آفتاب کی مانِند ہوں
جب وہ آب و تاب کے ساتھ طلُوع ہوتا
ہے۔
اور مُلک میں چالِیس برس امن رہا۔