Calvary Pentecostal Theological Seminary Pakistan

Urdu Bible

Home Churches Seminary The Bible Books Prayer Request About Us Contact Us

لُوقا


تمہید
1چُونکہ بُہتوں نے اِس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمِیان واقِع ہُوئِیں اُن کو ترتِیب وار بیان کریں۔ 2جَیسا کہ اُنہوں نے جو شرُوع سے خُود دیکھنے والے اور کلام کے خادِم تھے اُن کو ہم تک پُہنچایا۔ 3اِس لِئے اَے مُعزّز تِھیُفِلُس مَیں نے بھی مُناسِب جانا کہ سب باتوں کا سِلسِلہ شرُوع سے ٹِھیک ٹِھیک دریافت کر کے اُن کو تیرے لِئے ترتِیب سے لِکُھوں 4تاکہ جِن باتوں کی تُو نے تعلِیم پائی ہے اُن کی پُختگی تُجھے معلُوم ہو جائے۔
یُوحنّا بپتسِمہ دینے والے کی پَیدایش کی بشارت
5یہُودیہ کے بادشاہ ہیرودؔیس کے زمانہ میں اَبِیّاؔہ کے فرِیق میں سے زکریاؔہ نام ایک کاہِن تھا اور اُس کی بِیوی ہاروؔن کی اَولاد میں سے تھی اور اُس کا نام اِلیشِبَع تھا۔ 6اور وہ دونوں خُدا کے حضُور راست باز اور خُداوند کے سب احکام و قوانِین پر بے عَیب چلنے والے تھے 7اور اُن کے اَولاد نہ تھی کیونکہ اِلیشِبَع بانجھ تھی اور دونوں عُمر رسِیدہ تھے۔
8جب وہ خُدا کے حضُور اپنے فرِیق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو اَیسا ہُؤا 9کہ کہانت کے دستُور کے مُوافِق اُس کے نام کا قُرعہ نِکلا کہ خُداوند کے مَقدِس میں جا کر خُوشبُو جلائے 10اور لوگوں کی ساری جماعت خُوشبُو جلاتے وقت باہر دُعا کر رہی تھی
11کہ خُداوند کا فرِشتہ خُوشبُو کے مذبح کی دہنی طرف کھڑا ہُؤا اُس کو دِکھائی دِیا 12اور زکریاؔہ دیکھ کر گھبرایا اور اُس پر دہشت چھا گئی۔ 13مگر فرِشتہ نے اُس سے کہا اَے زکریاؔہ! خَوف نہ کر کیونکہ تیری دُعا سُن لی گئی اور تیرے لِئے تیری بِیوی اِلیشِبَع کے بیٹا ہو گا۔ تُو اُس کا نام یُوحنّا رکھنا 14اور تُجھے خُوشی و خُرّمی ہو گی اور بُہت سے لوگ اُس کی پَیدایش کے سبب سے خُوش ہوں گے 15کیونکہ وہ خُداوند کے حضُور میں بزُرگ ہو گا اور ہرگِز نہ مَے نہ کوئی اَور شراب پِیئے گا اور اپنی ماں کے بَطن ہی سے رُوحُ القُدس سے بھر جائے گا 16اور بُہت سے بنی اِسرائیل کو خُداوند کی طرف جو اُن کا خُدا ہے پھیرے گا 17اور وہ ایلیّاؔہ کی رُوح اور قُوّت میں اُس کے آگے آگے چلے گا کہ والِدوں کے دِل اَولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راست بازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خُداوند کے لِئے ایک مُستعِد قَوم تیّار کرے۔
18زکریاؔہ نے فرِشتہ سے کہا مَیں اِس بات کو کِس طرح جانُوں؟ کیونکہ مَیں بُوڑھا ہُوں اور میری بِیوی عُمر رسِیدہ ہے۔
19فرِشتہ نے جواب میں اُس سے کہا مَیں جبراؔئیل ہُوں جو خُدا کے حضُور کھڑا رہتا ہُوں اور اِس لِئے بھیجا گیا ہُوں کہ تُجھ سے کلام کرُوں اور تُجھے اِن باتوں کی خُوشخبری دُوں 20اور دیکھ جِس دِن تک یہ باتیں واقِع نہ ہو لیں تُو چُپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا۔ اِس لِئے کہ تُو نے میری باتوں کا جو اپنے وقت پر پُوری ہوں گی یقِین نہ کِیا۔
21اور لوگ زکرؔیاہ کی راہ دیکھتے اور تَعجُّب کرتے تھے کہ اُسے مَقدِس میں کیوں دیر لگی۔ 22جب وہ باہر آیا تو اُن سے بول نہ سکا۔ پس اُنہوں نے معلُوم کِیا کہ اُس نے مَقدِس میں رویا دیکھی ہے اور وہ اُن سے اِشارے کرتا تھا اور گُونگا ہی رہا۔
23پِھر اَیسا ہُؤا کہ جب اُس کی خِدمت کے دِن پُورے ہو گئے تو وہ اپنے گھر گیا۔ 24اِن دِنوں کے بعد اُس کی بِیوی اِلیشِبَع حامِلہ ہُوئی اور اُس نے پانچ مہِینے تک اپنے تئِیں یہ کہہ کر چُھپائے رکھا کہ 25جب خُداوند نے میری رُسوائی لوگوں میں سے دُور کرنے کے لِئے مُجھ پر نظر کی اُن دِنوں میں اُس نے میرے لِئے اَیسا کِیا۔
یِسُوع کی پَیدایش کی بشارت
26چھٹے مہِینے میں جبراؔئیل فرِشتہ خُدا کی طرف سے گلِیل کے ایک شہر میں جِس کا نام ناصرۃ تھا ایک کُنواری کے پاس بھیجا گیا۔ 27جِس کی منگنی داؤُد کے گھرانے کے ایک مَرد یُوسفؔ نام سے ہُوئی تھی اور اُس کُنواری کا نام مریمؔ تھا 28اور فرِشتہ نے اُس کے پاس اندر آ کر کہا سلام تُجھ کو جِس پر فضل ہُؤا ہے! خُداوند تیرے ساتھ ہے۔
29وہ اِس کلام سے بُہت گھبرا گئی اور سوچنے لگی کہ یہ کَیسا سلام ہے۔ 30فرِشتہ نے اُس سے کہا اَے مریمؔ! خَوف نہ کر کیونکہ خُدا کی طرف سے تُجھ پر فضل ہُؤا ہے 31اور دیکھ تُو حامِلہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا۔ اُس کا نام یِسُوعؔ رکھنا۔ 32وہ بزُرگ ہو گا اور خُدا تعالےٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خُداوند خُدا اُس کے باپ داؤُد کا تخت اُسے دے گا 33اور وہ یعقُوبؔ کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کرے گا اور اُس کی بادشاہی کا آخِر نہ ہو گا۔
34مریمؔ نے فرِشتہ سے کہا یہ کیوں کر ہو گا جب کہ مَیں مَرد کو نہیں جانتی؟
35اور فرِشتہ نے جواب میں اُس سے کہا کہ رُوحُ القُدس تُجھ پر نازِل ہو گا اور خُدا تعالےٰ کی قُدرت تُجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مَولُودِ مُقدّس خُدا کا بیٹا کہلائے گا 36اور دیکھ تیری رِشتہ دار اِلیشِبَع کے بھی بُڑھاپے میں بیٹا ہونے والا ہے اور اب اُس کو جو بانجھ کہلاتی تھی چھٹا مہینہ ہے 37کیونکہ جو قَول خُدا کی طرف سے ہے وہ ہرگِز بے تاثِیر نہ ہو گا۔
38مریمؔ نے کہا دیکھ مَیں خُداوند کی بندی ہُوں۔ میرے لِئے تیرے قَول کے مُوافِق ہو۔ تب فرِشتہ اُس کے پاس سے چلا گیا۔
مریمؔ اِلیِشبعَ سے مُلاقات کرتی ہے
39اُن ہی دِنوں مریمؔ اُٹھی اور جلدی سے پہاڑی مُلک میں یہُوداؔہ کے ایک شہر کو گئی 40اور زکرؔیاہ کے گھر میں داخِل ہو کر اِلیشِبَع کو سلام کِیا 41اور جُونہی اِلیشِبَع نے مریمؔ کا سلام سُنا تو اَیسا ہُؤا کہ بچّہ اُس کے رَحِم میں اُچھل پڑا اور اِلیشِبَع رُوحُ القُدس سے بھر گئی 42اور بُلند آواز سے پُکار کر کہنے لگی کہ تُو عَورتوں میں مُبارِک اور تیرے رَحِم کا پَھل مُبارک ہے 43اور مُجھ پر یہ فضل کہاں سے ہُؤا کہ میرے خُداوند کی ماں میرے پاس آئی؟ 44کیونکہ دیکھ جُونہی تیرے سلام کی آواز میرے کان میں پُہنچی بچّہ مارے خُوشی کے میرے رَحمِ میں اُچھل پڑا 45اور مُبارک ہے وہ جو اِیمان لائی کیونکہ جو باتیں خُداوند کی طرف سے اُس سے کہی گئی تِھیں وہ پُوری ہوں گی۔
مریمؔ حمد کا گِیت گاتی ہے
46پِھر مریمؔ نے کہا کہ میری جان خُداوند کی بڑائی کرتی ہے
47اور میری رُوح میرے مُنّجی خُدا سے خُوش ہُوئی
48کیونکہ اُس نے اپنی بندی کی پست حالی پر نظر کی
اور دیکھ اب سے لے کر ہر زمانہ کے لوگ مُجھ کو
مُبارک کہیں گے
49کیونکہ اُس قادِر نے میرے لِئے بڑے بڑے کام
کِئے ہیں
اور اُس کا نام پاک ہے
50اور اُس کا رَحم اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں
پُشت دَر پُشت رہتا ہے۔
51اُس نے اپنے بازُو سے زور دِکھایا
اور جو اپنے تئِیں بڑا سمجھتے تھے اُن کو پراگندہ کِیا۔
52اُس نے اِختیار والوں کو تخت سے گِرا دیا
اور پست حالوں کو بُلند کِیا۔
53اُس نے بُھوکوں کو اچھّی چِیزوں سے سیر کر دیا
اور دَولت مندوں کو خالی ہاتھ لَوٹا دِیا۔
54اُس نے اپنے خادِم اِسرائیلؔ کو سنبھال لِیا
تاکہ اپنی اُس رحمت کو یاد فرمائے۔
55جو ابرہامؔ اور اُس کی نسل پر ابد تک رہے گی
جَیسا اُس نے ہمارے باپ دادا سے کہا تھا
56اور مریمؔ تِین مہِینے کے قرِیب اُس کے ساتھ رہ کر اپنے گھر کو لَوٹ گئی۔
یُوحنّا بپتسِمہ دینے والے کی پَیدایش
57اور اِلیشِبَع کے وضعِ حمل کا وقت آ پُہنچا اور اُس کے بیٹا ہُؤا 58اور اُس کے پڑوسِیوں اور رِشتہ داروں نے یہ سُن کر کہ خُداوند نے اُس پر بڑی رحمت کی اُس کے ساتھ خُوشی منائی۔
59اور آٹھویں دِن اَیسا ہُؤا کہ وہ لڑکے کا خَتنہ کرنے آئے اور اُس کا نام اُس کے باپ کے نام پر زکرؔیاہ رکھنے لگے۔ 60مگر اُس کی ماں نے کہا نہیں بلکہ اُس کا نام یُوحنّا رکھّا جائے۔
61اُنہوں نے اُس سے کہا کہ تیرے کُنبے میں کِسی کا یہ نام نہیں۔ 62اور اُنہوں نے اُس کے باپ کو اِشارہ کِیا کہ تُو اُس کا نام کیا رکھنا چاہتا ہے؟
63اُس نے تختی منگا کر یہ لِکھا کہ اُس کا نام یُوحنّا ہے اور سب نے تعجُّب کِیا۔ 64اُسی دَم اُس کا مُنہ اور زُبان کُھل گئی اور وہ بولنے اور خُدا کی حمد کرنے لگا۔ 65اور اُن کے آس پاس کے سب رہنے والوں پر دہشت چھا گئی اور یہُودیہ کے تمام پہاڑی مُلک میں اِن سب باتوں کا چرچا پَھیل گیا۔ 66اور سب سُننے والوں نے اُن کو دِل میں سوچ کر کہا تو یہ لڑکا کَیسا ہونے والا ہے؟ کیونکہ خُداوند کا ہاتھ اُس پر تھا۔
زکریاؔہ کی نُبّوت
67اور اُس کا باپ زکرؔیاہ رُوحُ القُدس سے بھر گیا اور نبُوّت کی راہ سے کہنے لگا کہ
68خُداوند اِسرائیلؔ کے خُدا کی حمد ہو
کیونکہ اُس نے اپنی اُمّت پر توجُّہ کر کے اُسے
چُھٹکارا دِیا
69اور اپنے خادِم داؤُد کے گھرانے میں
ہمارے لِئے نجات کا سِینگ نِکالا۔
70(جَیسا اُس نے اپنے پاک نبِیوں کی زُبانی کہا تھا
جو کہ دُنیا کے شرُوع سے ہوتے آئے ہیں)
71یعنی ہم کو ہمارے دُشمنوں سے
اور سب کِینہ رکھنے والوں کے ہاتھ سے نجات
بخشی
72تاکہ ہمارے باپ دادا پر رحم کرے
اور اپنے پاک عہد کو یاد فرمائے
73یعنی اُس قَسم کو جو اُس نے ہمارے باپ ابرہامؔ
سے کھائی تھی
74کہ وہ ہمیں یہ عِنایت کرے گا کہ اپنے دُشمنوں
کے ہاتھ سے چُھوٹ کر
75اُس کے حضُور پاکِیزگی اور راست بازی سے
عُمر بھر بے خَوف اُس کی عِبادت کریں۔
76اور اَے لڑکے تُو خُدا تعالےٰ کا نبی کہلائے گا
کیونکہ تُو خُداوند کی راہیں تیّار کرنے کو
اُس کے آگے آگے چلے گا
77تاکہ اُس کی اُمّت کو نجات کا عِلم بخشے
جو اُن کو گُناہوں کی مُعافی سے حاصِل ہو۔
78یہ ہمارے خُدا کی عَین رحمت سے ہو گا
جِس کے سبب سے عالمِ بالا کا آفتاب ہم پر
طلُوع کرے گا۔
79تاکہ اُن کو جو اندھیرے اور مَوت کے سایہ میں
بَیٹھے ہیں رَوشنی بخشے
اور ہمارے قدموں کو سلامتی کی راہ پر ڈالے۔
80اور وہ لڑکا بڑھتا اور رُوح میں قُوّت پاتا گیا اور اِسرائیلؔ پر ظاہِر ہونے کے دِن تک جنگلوں میں رہا۔
یِسُوع کی پَیدایش
(متّی ۱‏:۱۸‏-۲۵)
1اُن دِنوں میں اَیسا ہُؤا کہ قَیصر اَوگُوستُس کی طرف سے یہ حُکم جاری ہُؤا کہ ساری دُنیا کے لوگوں کے نام لِکھے جائیں۔ 2یہ پہلی اِسم نوِیسی سُورؔیہ کے حاکِم کورنِیُس کے عہد میں ہُوئی۔ 3اور سب لوگ نام لِکھوانے کے لِئے اپنے اپنے شہر کو گئے۔
4پس یُوسفؔ بھی گلِیل کے شہر ناصرۃ سے داؤُد کے شہر بَیت لحم کو گیا جو یہُودیہ میں ہے۔ اِس لِئے کہ وہ داؤُد کے گھرانے اور اَولاد سے تھا۔ 5تاکہ اپنی منگیتر مریمؔ کے ساتھ جو حامِلہ تھی نام لِکھوائے۔ 6جب وہ وہاں تھے تو اَیسا ہُؤا کہ اُس کے وضعِ حمل کا وقت آ پُہنچا۔ 7اور اُس کا پہلوٹا بیٹا پَیدا ہُؤا اور اُس نے اُس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھّا کیونکہ اُن کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔
چرواہے اور فرِشتے
8اُسی عِلاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو مَیدان میں رہ کر اپنے گلّہ کی نِگہبانی کر رہے تھے۔ 9اور خُداوند کا فرِشتہ اُن کے پاس آ کھڑا ہُؤا اور خُداوند کا جلال اُن کے چَوگِرد چمکا اور وہ نِہایت ڈر گئے۔ 10مگر فرِشتہ نے اُن سے کہا ڈرو مت کیونکہ دیکھو مَیں تُمہیں بڑی خُوشی کی بشارت دیتا ہُوں جو ساری اُمّت کے واسطے ہو گی 11کہ آج داؤُد کے شہر میں تُمہارے لِئے ایک مُنّجی پَیدا ہُؤا ہے یعنی مسِیح خُداوند۔ 12اور اِس کا تُمہارے لِئے یہ نِشان ہے کہ تُم ایک بچّہ کو کپڑے میں لِپٹا اور چرنی میں پڑا ہُؤا پاؤ گے۔
13اور یکایک اُس فرِشتہ کے ساتھ آسمانی لشکر کی ایک گروہ خُدا کی حمد کرتی اور یہ کہتی ظاہِر ہُوئی کہ
14عالَمِ بالا پر خُدا کی تمجِید ہو
اور زمِین پر اُن آدَمِیوں میں جِن سے وہ راضی
ہے صُلح۔
15جب فرِشتے اُن کے پاس سے آسمان پر چلے گئے تو اَیسا ہُؤا کہ چرواہوں نے آپس میں کہا کہ آؤ بَیت لحم تک چلیں اور یہ بات جو ہُوئی ہے اور جِس کی خُداوند نے ہم کو خبر دی ہے دیکھیں۔
16پس اُنہوں نے جلدی سے جا کر مریمؔ اور یُوسفؔ کو دیکھا اور اُس بچّہ کو چرنی میں پڑا پایا۔ 17اور اُنہیں دیکھ کر وہ بات جو اُس لڑکے کے حق میں اُن سے کہی گئی تھی مشہُور کی۔ 18اور سب سُننے والوں نے اِن باتوں پر جو چرواہوں نے اُن سے کہِیں تعجُّب کِیا۔ 19مگر مریمؔ اِن سب باتوں کو اپنے دِل میں رکھ کر غَور کرتی رہی۔ 20اور چرواہے جَیسا اُن سے کہا گیا تھا وَیسا ہی سب کُچھ سُن کر اور دیکھ کر خُدا کی تمجِید اور حمد کرتے ہُوئے لَوٹ گئے۔
یِسُوع کا نام رکھّا جاتا ہے
21جب آٹھ دِن پُورے ہُوئے اور اُس کے خَتنہ کا وقت آیا تو اُس کا نام یِسُوعؔ رکھا گیا جو فرِشتہ نے اُس کے رَحِم میں پڑنے سے پہلے رکھّا تھا۔
یِسُوع کو ہَیکل میں پیش کِیا جاتا ہے
22پِھر جب مُوسیٰ کی شرِیعت کے مُوافِق اُن کے پاک ہونے کے دِن پُورے ہو گئے تو وہ اُس کو یروشلِیم میں لائے تاکہ خُداوند کے آگے حاضِر کریں۔ 23(جَیسا کہ خُداوند کی شرِیعت میں لِکھا ہے کہ ہر ایک پہلوٹا خُداوند کے لِئے مُقدّس ٹھہرے گا) 24اور خُداوند کی شرِیعت کے اِس قَول کے مُوافِق قُربانی کریں کہ قُمرِیوں کا ایک جوڑا یا کبُوتر کے دو بچّے لاؤ۔
25اور دیکھو یرُوشلیم میں شمعُون نام ایک آدمی تھا اور وہ آدمی راست باز اور خُدا ترس اور اِسرائیلؔ کی تسلّی کا مُنتظِر تھا اور رُوحُ القُدس اُس پر تھا۔ 26اور اُس کو رُوحُ القُدس سے آگاہی ہُوئی تھی کہ جب تک تُو خُداوند کے مسِیح کو دیکھ نہ لے مَوت کو نہ دیکھے گا۔ 27وہ رُوح کی ہدایت سے ہَیکل میں آیا اور جِس وقت ماں باپ اُس لڑکے یِسُوعؔ کو اندر لائے تاکہ اُس کے لِئے شرِیعت کے دستُور پر عمل کریں۔ 28تو اُس نے اُسے اپنی گود میں لِیا اور خُدا کی حمد کر کے کہا کہ
29اَے مالِک اب تُو اپنے خادِم کو اپنے قَول کے مُوافِق
سلامتی سے رُخصت کرتا ہے۔
30کیونکہ میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھ لی ہے
31جو تُو نے سب اُمتّوں کے رُوبرُو تیّار کی ہے
32تاکہ غَیر قَوموں کو رَوشنی دینے والا نُور
اور تیری اُمّت اِسرائیلؔ کا جلال بنے۔
33اور اُس کا باپ اور اُس کی ماں اِن باتوں پر جو اُس کے حق میں کہی جاتی تِھیں تعجُّب کرتے تھے۔ 34اور شمعُوؔن نے اُن کے لِئے دُعائے خَیر کی اور اُس کی ماں مریمؔ سے کہا دیکھ یہ اِسرائیلؔ میں بُہتوں کے گِرنے اور اُٹھنے کے لِئے اور اَیسا نِشان ہونے کے لِئے مُقرّر ہُؤا ہے جِس کی مُخالفت کی جائے گی۔ 35بلکہ خُود تیری جان بھی تلوار سے چِھد جائے گی تاکہ بُہت لوگوں کے دِلوں کے خیال کُھل جائیں۔
36اور آشر کے قبِیلہ میں سے حنّاہ نام فنوایل کی بیٹی ایک نبِیّہ تھی۔ وہ بُہت عُمر رسِیدہ تھی اور اُس نے اپنے کُنوارپَن کے بعد سات برس ایک شَوہر کے ساتھ گُذارے تھے۔ 37وہ چَوراسی برس سے بیوہ تھی اور ہَیکل سے جُدا نہ ہوتی تھی بلکہ رات دِن روزوں اور دُعاؤں کے ساتھ عِبادت کِیا کرتی تھی۔ 38اور وہ اُسی گھڑی وہاں آ کر خُدا کا شُکر کرنے لگی اور اُن سب سے جو یروشلِیم کے چُھٹکارے کے مُنتظِر تھے اُس کی بابت باتیں کرنے لگی۔
ناصرت کو واپسی
39اور جب وہ خُداوند کی شرِیعت کے مُطابِق سب کُچھ کر چُکے تو گلِیل میں اپنے شہر ناصرۃ کو پِھر گئے۔ 40اور وہ لڑکا بڑھتا اور قُوّت پاتا گیا اور حِکمت سے معمُور ہوتا گیا اور خُدا کا فضل اُس پر تھا۔
لڑکا یِسُوع ہَیکل میں
41اُس کے ماں باپ ہر برس عِیدِ فَسح پر یروشلیِم کو جایا کرتے تھے۔ 42اور جب وہ بارہ برس کا ہُؤا تو وہ عِید کے دستُور کے مُوافِق یروشلِیم کو گئے۔ 43جب وہ اُن دِنوں کو پُورا کر کے لَوٹے تو وہ لڑکا یِسُوعؔ یروشلِیم میں رہ گیا اور اُس کے ماں باپ کو خبر نہ ہُوئی۔ 44مگر یہ سمجھ کر کہ وہ قافِلہ میں ہے ایک منزِل نِکل گئے اور اُسے اپنے رِشتہ داروں اور جان پہچانوں میں ڈُھونڈنے لگے۔ 45جب نہ مِلا تو اُسے ڈُھونڈتے ہُوئے یروشلِیم تک واپس گئے۔ 46اور تِین روز کے بعد اَیسا ہُؤا کہ اُنہوں نے اُسے ہَیکل میں اُستادوں کے بِیچ میں بَیٹھے اُن کی سُنتے اور اُن سے سوال کرتے ہُوئے پایا۔ 47اور جِتنے اُس کی سُن رہے تھے اُس کی سمجھ اور اُس کے جوابوں سے دنگ تھے۔ 48وہ اُسے دیکھ کر حَیران ہُوئے اور اُس کی ماں نے اُس سے کہا بیٹا! تُو نے کیوں ہم سے اَیسا کِیا؟ دیکھ تیرا باپ اور مَیں کُڑھتے ہُوئے تُجھے ڈُھونڈتے تھے۔
49اُس نے اُن سے کہا تُم مُجھے کیوں ڈُھونڈتے تھے؟ کیا تُم کو معلُوم نہ تھا کہ مُجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرُور ہے؟ 50مگر جو بات اُس نے اُن سے کہی اُسے وہ نہ سمجھے۔
51اور وہ اُن کے ساتھ روانہ ہو کر ناصرۃ میں آیا اور اُن کے تابع رہا اور اُس کی ماں نے یہ سب باتیں اپنے دِل میں رکھِّیں۔ 52اور یِسُوعؔ حِکمت اور قد و قامت میں اور خُدا کی اور اِنسان کی مقبُولیّت میں ترقّی کرتا گیا۔
یُوحنّا بپتسِمہ دینے والے کی مُنادی
(متّی ۳‏:۱‏-۱۲؛ مرقس ۱‏:۱‏-۸؛ یُوحنّا ۱‏:۱۹‏-۲۸)
1تِبرِؔیُس قَیصر کی حُکُومت کے پندرھویں برس جب پُنطِیُس پِیلاطُسؔ یہُودیہ کا حاکِم تھا اور ہیرودؔیس گلِیل کا اور اُس کا بھائی فِلپُّس اِتُورؔیہِّ اور ترخونیؔتِس کا اور لِسانیاؔس اَبِلینے کا حاکِم تھا۔ 2اور حنّاہ اور کائِفا سردار کاہِن تھے اُس وقت خُدا کا کلام بیابان میں زکریاؔہ کے بیٹے یُوحنّا پر نازِل ہُؤا۔ 3اور وہ یَردؔن کے سارے گِرد و نواح میں جا کر گُناہوں کی مُعافی کے لِئے تَوبہ کے بپتِسمہ کی مُنادی کرنے لگا۔ 4جَیسا یسعیاہ نبی کے کلام کی کِتاب میں لِکھا ہے کہ
بیابان میں پُکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ
خُداوند کی راہ تیّار کرو۔
اُس کے راستے سِیدھے بناؤ۔
5ہر ایک گھاٹی بھر دی جائے گی
اور ہر ایک پہاڑ اور ٹِیلہ نِیچا کِیا جائے گا
اور جو ٹیڑھا ہے سیدھا
اور جو اُونچا نِیچا ہے ہموار راستہ بنے گا۔
6اور ہر بشر خُدا کی نجات دیکھے گا۔
7پس جو لوگ اُس سے بپتِسمہ لینے کو نِکل کر آتے تھے وہ اُن سے کہتا تھا اَے سانپ کے بچّو! تُمہیں کِس نے جتایا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟ 8پس تَوبہ کے مُوافِق پَھل لاؤ اور اپنے دِلوں میں یہ کہنا شرُوع نہ کرو کہ ابرہامؔ ہمارا باپ ہے کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ خُدا اِن پتّھروں سے ابرہامؔ کے لِئے اَولاد پَیدا کر سکتا ہے۔ 9اور اب تو درختوں کی جڑ پر کُلہاڑا رکھّا ہے۔ پس جو درخت اچّھا پَھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔
10لوگوں نے اُس سے پُوچھا پِھر ہم کیا کریں؟
11اُس نے جواب میں اُن سے کہا جِس کے پاس دو کُرتے ہوں وہ اُس کو جِس کے پاس نہ ہو بانٹ دے اور جِس کے پاس کھانا ہو وہ بھی اَیسا ہی کرے۔
12اور محصُول لینے والے بھی بپتِسمہ لینے کو آئے اور اُس سے پُوچھا کہ اَے اُستاد ہم کیا کریں؟
13اُس نے اُن سے کہا جو تُمہارے لِئے مُقرّر ہے اُس سے زِیادہ نہ لینا۔
14اور سِپاہیوں نے بھی اُس سے پُوچھا کہ ہم کیا کریں؟
اُس نے اُن سے کہا نہ کِسی پر ظُلم کرو اور نہ کِسی سے ناحق کُچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کِفایت کرو۔
15جب لوگ مُنتظِر تھے اور سب اپنے اپنے دِل میں یُوؔحنّا کی بابت سوچتے تھے کہ آیا وہ مسِیح ہے یا نہیں۔ 16تو یُوحنّا نے اُن سب سے جواب میں کہا مَیں تو تُمہیں پانی سے بپتِسمہ دیتا ہُوں مگر جو مُجھ سے زورآور ہے وہ آنے والا ہے۔ مَیں اُس کی جُوتی کا تسمہ کھولنے کے لائِق نہیں۔ وہ تُمہیں رُوحُ القُدس اور آگ سے بپتسِمہ دے گا۔ 17اُس کا چھاج اُس کے ہاتھ میں ہے تاکہ وہ اپنے کھلیہان کو خُوب صاف کرے اور گیہُوں کو اپنے کھتّے میں جمع کرے مگر بُھوسی کو اُس آگ میں جلائے گا جو بُجھنے کی نہیں۔
18پس وہ اَور بُہت سی نصیحت کر کے لوگوں کو خُوشخبری سُناتا رہا۔ 19لیکن چَوتھائی مُلک کے حاکِم ہیرودؔیس نے اپنے بھائی فِلِپُّس کی بِیوی ہیرودِؔیاس کے سبب سے اور اُن سب بُرائیوں کے باعِث جو ہیرودؔیس نے کی تِھیں یُوحنّا سے ملامت اُٹھا کر۔ 20اِن سب سے بڑھ کر یہ بھی کِیا کہ اُس کو قَید میں ڈالا۔
یِسُوع کا بپتسِمہ
(متّی ۳‏:۱۳‏-۱۷؛ مرقس ۱‏:۹‏-۱۱)
21جب سب لوگوں نے بپتسِمہ لِیا اور یِسُوعؔ بھی بپتسِمہ پا کر دُعا کر رہا تھا تو اَیسا ہُؤا کہ آسمان کُھل گیا۔ 22اور رُوحُ القُدس جِسمانی صُورت میں کبُوتر کی مانِند اُس پر نازِل ہُؤا اور آسمان سے آواز آئی کہ تُو میرا پیارا بیٹا ہے۔ تُجھ سے مَیں خُوش ہُوں۔
یِسُوع کے آباواجداد
23جب یِسُوعؔ خُود تعلِیم دینے لگا قرِیباً تِیس برس کا تھا اور (جَیسا کہ سمجھا جاتا تھا) یُوسفؔ کا بیٹا تھا
اور وہ عیلی کا۔ 24اور وہ متّات کا
اور وہ لاوؔی کا اور وہ ملکی کا
اور وہ ینّا کا اور وہ یُوسفؔ کا۔
25اور وہ مَتّتِیاؔہ کا اور وہ عامُوؔس کا
اور وہ ناحُوؔم کا اور وہ اسلیاؔہ کا
اور وہ نوگہ کا۔ 26اور وہ ماؔعَت کا
اور وہ مَتّتیاؔہ کا اور وہ شِمعی کا
اور وہ یوسیخ کا اور وہ یوداؔہ کا۔
27اور وہ یُوحنّا کا اور وہ ریسا کا
اور وہ زرُبّابِل کا اور وہ سیالتی ایل کا
اور وہ نیرؔی کا۔ 28اور وہ ملکی کا
اور وہ اَدّی کا اور وہ قوساؔم کا
اور وہ اِلموداؔم کا اور وہ عیر کا۔
29اور وہ یشُوؔع کا اور وہ الِیعزر کا
اور وہ یورِؔیم کا اور وہ متّات کا
اور وہ لاوؔی کا۔ 30اور وہ شمعُوؔن کا
اور وہ یہُوداؔہ کا اور وہ یُوسفؔ کا
اور وہ یوؔنان کا اور وہ الیاؔقِیم کا۔
31اور وہ ملےؔآہ کا اور وہ مِنّاہ
کا اور وہ متَّتاہ کا اور وہ ناتن کا
اور وہ داؤُد کا۔ 32اور وہ یسّی کا
اور وہ عوبید کا اور وہ بوعز کا
اور وہ سلموؔن کا اور وہ نحسون کا۔
33اور وہ عَمّینداؔب کا اور وہ ارؔنی کا
اور وہ حصروؔن کا اور وہ فارؔص کا
اور وہ یہُوداؔہ کا۔ 34اور وہ یعقُوبؔ کا
اور وہ اِضحاقؔ کا اور وہ ابرہامؔ
کا اور وہ تارؔہ کا اور وہ نحُور کا۔
35اور وہ سُروؔج کا اور وہ رعُو کا
اور وہ فلج کا اور وہ عِبر کا
اور وہ سلح کا۔ 36اور وہ قیناؔن کا
اور وہ اَرفکسد کا اور وہ سِم کا
اور وہ نُوح کا اور وہ لَمک کا۔
37اور وہ متُوؔسِلح کا اور وہ حَنُوؔک کا
اور وہ یارِد کا اور وہ مَہلل ایل کا
اور وہ قِیناؔن کا۔ 38اور وہ انُوس کا
اور وہ سیتؔ کا اور وہ آدؔم کا
اور وہ خُدا کا تھا۔
یِسُوع کی آزمایش
(متّی ۴‏:۱‏-۱۱؛ مرقس ۱‏:۱۲‏-۱۳)
1پِھر یِسُوعؔ رُوحُ القُدس سے بھرا ہُؤا یَردؔن سے لَوٹا اور چالِیس دِن تک رُوح کی ہدایت سے بیابان میں پِھرتا رہا۔ 2اور اِبلِیس اُسے آزماتا رہا۔ اُن دِنوں میں اُس نے کُچھ نہ کھایا اور جب وہ دِن پُورے ہو گئے تو اُسے بُھوک لگی۔
3اور اِبلِیس نے اُس سے کہا کہ اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو اِس پتّھر سے کہہ کہ روٹی بن جائے۔
4یِسُوعؔ نے اُس کو جواب دِیا لِکھا ہے کہ آدمی صِرف روٹی ہی سے جِیتا نہ رہے گا۔
5اور اِبلِیس نے اُسے اُونچے پر لے جا کر دُنیا کی سب سلطنتیں پَل بھر میں دِکھائِیں۔ 6اور اُس سے کہا کہ یہ سارا اِختیار اور اُن کی شان و شوکت مَیں تُجھے دے دُوں گا کیونکہ یہ میرے سپُرد ہے اور جِس کو چاہتا ہُوں دیتا ہُوں۔ 7پس اگر تُو میرے آگے سِجدہ کرے تو یہ سب تیرا ہو گا۔
8یِسُوعؔ نے جواب میں اُس سے کہا لِکھا ہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عِبادت کر۔
9اور وہ اُسے یروشلِیم میں لے گیا اور ہَیکل کے کنگُرے پر کھڑا کر کے اُس سے کہا اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئِیں یہاں سے نِیچے گِرا دے۔ 10کیونکہ لِکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرِشتوں کو حُکم دے گا کہ تیری حِفاظت کریں۔ 11اور یہ بھی کہ وہ تُجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے۔ مبادا تیرے پاؤں کو پتّھر سے ٹھیس لگے۔
12یِسُوعؔ نے جواب میں اُس سے کہا فرمایا گیا ہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کی آزمایش نہ کر۔
13جب اِبلِیس تمام آزمایشیں کر چُکا تو کُچھ عرصہ کے لِئے اُس سے جُدا ہُؤا۔
یِسُوع گلِیل میں خِدمت شرُوع کرتا ہے
(متّی ۴‏:۱۲‏-۱۷؛ مرقس ۱‏:۱۴‏-۱۷)
14پِھر یِسُوعؔ رُوح کی قُوّت سے بھرا ہُؤا گلِیل کو لَوٹا اور سارے گِرد و نواح میں اُس کی شُہرت پَھیل گئی۔ 15اور وہ اُن کے عِبادت خانوں میں تعلِیم دیتا رہا اور سب اُس کی بڑائی کرتے رہے۔
یِسُوع ناصرت میں ردّ کِیا جاتا ہے
(متّی ۱۳‏:۵۳‏-۵۸؛ مرقس ۶‏:۱‏-۶)
16اور وہ ناصرۃ میں آیا جہاں اُس نے پرورِش پائی تھی اور اپنے دستُور کے مُوافِق سَبت کے دِن عِبادت خانہ میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہُؤا۔ 17اور یسعیاہ نبی کی کِتاب اُس کو دی گئی اور کِتاب کھول کر اُس نے وہ مقام نِکالا جہاں یہ لِکھا تھا کہ
18خُداوند کا رُوح مُجھ پر ہے۔
اِس لِئے کہ اُس نے مُجھے غرِیبوں کو
خُوشخبری دینے کے لِئے مَسح کِیا۔
اُس نے مُجھے بھیجا ہے کہ قَیدِیوں کو رِہائی
اور اندھوں کو بِینائی پانے کی خبر سُناوُں۔
کُچلے ہُوؤں کو آزاد کرُوں۔
19اور خُداوند کے سالِ مقبُول کی مُنادی کرُوں۔
20پِھر وہ کِتاب بند کر کے اور خادِم کو واپس دے کر بَیٹھ گیا اور جِتنے عِبادت خانہ میں تھے سب کی آنکھیں اُس پر لگی تِھیں۔ 21وہ اُن سے کہنے لگا کہ آج یہ نوِشتہ تُمہارے سامنے پُورا ہُؤا۔
22اور سب نے اُس پر گواہی دی اور اُن پُر فضل باتوں پر جو اُس کے مُنہ سے نِکلتی تِھیں تعجُّب کر کے کہنے لگے کیا یہ یُوسفؔ کا بیٹا نہیں؟
23اُس نے اُن سے کہا تُم البتّہ یہ مِثل مُجھ پر کہو گے کہ اَے حکِیم اپنے آپ کو تو اچھّا کر۔ جو کُچھ ہم نے سُنا ہے کہ کَفرؔنحُوم میں کِیا گیا یہاں اپنے وطن میں بھی کر۔ 24اور اُس نے کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ کوئی نبی اپنے وطن میں مقبُول نہیں ہوتا۔
25اور مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ ایلیّاہؔ کے دِنوں میں جب ساڑھے تِین برس آسمان بند رہا یہاں تک کہ سارے مُلک میں سخت کال پڑا بُہت سی بیوائیں اِسرائیلؔ میں تِھیں۔ 26لیکن ایلیّاہؔ اُن میں سے کِسی کے پاس نہ بھیجا گیا مگر مُلکِ صَیدا کے شہر صارؔپت میں ایک بیوہ کے پاس۔ 27اور اِلِیشَع نبی کے وقت میں اِسرائیلؔ کے درمِیان بُہت سے کوڑھی تھے لیکن اُن میں سے کوئی پاک صاف نہ کِیا گیا مگر نعمان سَوریانی۔
28جِتنے عِبادت خانہ میں تھے اِن باتوں کو سُنتے ہی قہر سے بھر گئے۔ 29اور اُٹھ کر اُس کو شہر سے باہر نِکالا اور اُس پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے جِس پر اُن کا شہر آباد تھا تاکہ اُسے سر کے بل گِرا دیں۔ 30مگر وہ اُن کے بِیچ میں سے نِکل کر چلا گیا۔
ایک بدرُوح گرفتہ آدمی
(مرقس ۱‏:۲۱‏-۲۸)
31پِھر وہ گلِیل کے شہر کَفرؔنحُوم کو گیا اور سبت کے دِن اُنہیں تعلِیم دے رہا تھا۔ 32اور لوگ اُس کی تعلِیم سے حَیران تھے کیونکہ اُس کا کلام اِختیار کے ساتھ تھا۔ 33اور عِبادت خانہ میں ایک آدمی تھا جِس میں ناپاک دیو کی رُوح تھی وہ بڑی آواز سے چِلاّ اُٹھا کہ 34اَے یِسُوعؔ ناصری ہمیں تُجھ سے کیا کام؟ کیا تُو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تُجھے جانتا ہُوں کہ تُو کَون ہے۔ خُدا کا قُدُّوس ہے۔
35یِسُوعؔ نے اُسے جِھڑک کر کہا چُپ رہ اور اُس میں سے نِکل جا۔ اِس پر بدرُوح اُسے بِیچ میں پٹک کر بغَیر ضرر پُہنچائے اُس میں سے نِکل گئی۔
36اور سب حَیران ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ یہ کَیسا کلام ہے؟ کیونکہ وہ اِختیار اور قُدرت سے ناپاک رُوحوں کو حُکم دیتا ہے اور وہ نِکل جاتی ہیں۔ 37اور گِرد و نواح میں ہر جگہ اُس کی دُھوم مچ گئی۔
یِسُوع بُہت لوگوں کو شِفا دیتا ہے
(متّی ۸‏:۱۴‏-۱۷؛ مرقس ۱‏:۲۹‏-۳۴)
38پِھر وہ عِبادت خانہ سے اُٹھ کر شمعُوؔن کے گھر میں داخِل ہُؤا اور شمعُوؔن کی ساس کو بڑی تپ چڑھی ہُوئی تھی اور اُنہوں نے اُس کے لِئے اُس سے عرض کی۔ 39وہ کھڑا ہو کر اُس کی طرف جُھکا اور تپ کو جِھڑکا تو اُتر گئی اور وہ اُسی دَم اُٹھ کر اُن کی خِدمت کرنے لگی۔
40اور سُورج کے ڈُوبتے وقت وہ سب لوگ جِن کے ہاں طرح طرح کی بِیمارِیوں کے مرِیض تھے اُنہیں اُس کے پاس لائے اور اُس نے اُن میں سے ہر ایک پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں اچھّا کِیا۔ 41اور بدرُوحیں بھی چِلاّ کر اور یہ کہہ کر کہ تُو خُدا کا بیٹا ہے بُہتوں میں سے نِکل گئِیں
اور وہ اُنہیں جِھڑکتا اور بولنے نہ دیتا تھا کیونکہ وہ جانتی تِھیں کہ یہ مسِیح ہے۔
یِسُوع عِبادت خانوں میں تعلیِم دیتا ہے
(مرقس ۱‏:۳۵‏-۳۹)
42جب دِن ہُؤا تو وہ نِکل کر ایک وِیران جگہ میں گیا اور بِھیڑ کی بِھیڑ اُس کو ڈُھونڈتی ہُوئی اُس کے پاس آئی اور اُس کو روکنے لگی کہ ہمارے پاس سے نہ جا۔ 43اُس نے اُن سے کہا مُجھے اَور شہروں میں بھی خُدا کی بادشاہی کی خُوشخبری سُنانا ضرُور ہے کیونکہ مَیں اِسی لِئے بھیجا گیا ہُوں۔
44اور وہ گلِیل کے عِبادت خانوں میں مُنادی کرتا رہا۔
یِسُوع پہلے شاگِردوں کو بُلاتا ہے
(متّی ۴‏:۱۸‏-۲۲؛ مرقس ۱‏:۱۶‏-۲۰)
1جب بِھیڑ اُس پر گِری پڑتی تھی اور خُدا کا کلام سُنتی تھی اور وہ گنّیسرؔت کی جِھیل کے کنارے کھڑا تھا تو اَیسا ہُؤا کہ 2اُس نے جِھیل کے کنارے دو کشتِیاں لگی دیکِھیں لیکن مچھلی پکڑنے والے اُن پر سے اُتر کر جال دھو رہے تھے۔ 3اور اُس نے اُن کشتِیوں میں سے ایک پر چڑھ کر جو شمعُوؔن کی تھی اُس سے درخواست کی کہ کنارے سے ذرا ہٹا لے چل اور وہ بَیٹھ کر لوگوں کو کشتی پر سے تعلِیم دینے لگا۔
4جب کلام کر چُکا تو شمعُوؔن سے کہا گہرے میں لے چل اور تُم شِکار کے لِئے اپنے جال ڈالو۔
5شمعُوؔن نے جواب میں کہا اَے اُستاد ہم نے رات بھر محنت کی اور کُچھ ہاتھ نہ آیا مگر تیرے کہنے سے جال ڈالتا ہُوں۔ 6یہ کِیا اور وہ مچھلِیوں کا بڑا غَول گھیر لائے اور اُن کے جال پھٹنے لگے۔ 7اور اُنہوں نے اپنے شرِیکوں کو جو دُوسری کشتی پر تھے اِشارہ کِیا کہ آؤ ہماری مدد کرو۔ پس اُنہوں نے آ کر دونوں کشتِیاں یہاں تک بھر دیں کہ ڈُوبنے لگِیں۔ 8شمعُوؔن پطرس یہ دیکھ کر یِسُوعؔ کے پاؤں میں گِرا اور کہا اَے خُداوند! میرے پاس سے چلا جا کیونکہ مَیں گُنہگار آدمی ہُوں۔
9کیونکہ مچھلِیوں کے اِس شِکار سے جو اُنہوں نے کِیا وہ اور اُس کے سب ساتھی بُہت حَیران ہُوئے۔ 10اور وَیسے ہی زبدؔی کے بیٹے یعقُوبؔ اور یُوحنّا بھی جو شمعُوؔن کے شرِیک تھے حَیران ہُوئے۔ یِسُوعؔ نے شمعُوؔن سے کہا خَوف نہ کر۔ اب سے تُو آدمِیوں کا شِکار کِیا کرے گا۔
11وہ کشتِیوں کو کنارے پر لے آئے اور سب کُچھ چھوڑ کر اُس کے پِیچھے ہو لِئے۔
یِسُوع ایک آدمی کو شِفا دیتا ہے
(متّی ۸‏:۱‏-۴؛ مرقس ۱‏:۴۰‏-۴۵)
12جب وہ ایک شہر میں تھا تو دیکھو کوڑھ سے بھرا ہُؤا ایک آدَمی یِسُوعؔ کو دیکھ کر مُنہ کے بَل گِرا اور اُس کی مِنّت کر کے کہنے لگا اَے خُداوند! اگر تُو چاہے تو مُجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔
13اُس نے ہاتھ بڑھا کر اُسے چُھؤا اور کہا مَیں چاہتا ہُوں۔ تُو پاک صاف ہو جا اور فوراً اُس کا کوڑھ جاتا رہا۔ 14اور اُس نے اُسے تاکِید کی کہ کِسی سے نہ کہنا بلکہ جا کر اپنے تئیں کاہِن کو دِکھا اور جَیسا مُوسیٰ نے مُقرّر کِیا ہے اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت نذر گُذران تاکہ اُن کے لِئے گواہی ہو۔
15لیکن اُس کا چرچا زِیادہ پَھیلا اور بُہت سے لوگ جمع ہُوئے کہ اُس کی سُنیں اور اپنی بِیمارِیوں سے شِفا پائیں۔ 16مگر وہ جنگلوں میں الگ جا کر دُعا کِیا کرتا تھا۔
یِسُوع ایک مفلُوج کو شِفا دیتا ہے
(متّی ۹‏:۱‏-۸؛ مرقس ۲‏:۱‏-۱۲)
17اور ایک دِن اَیسا ہُؤا کہ وہ تعلِیم دے رہا تھا اور فرِیسی اور شرع کے مُعلِّم وہاں بَیٹھے تھے جو گلِیل کے ہر گاؤں اور یہُودیہ اور یروشلِیم سے آئے تھے اور خُداوند کی قُدرت شِفا بخشنے کو اُس کے ساتھ تھی۔ 18اور دیکھو کئی مَرد ایک آدَمی کو جو مفلُوج تھا چارپائی پر لائے اور کوشِش کی کہ اُسے اندر لا کر اُس کے آگے رکھّیں۔ 19اور جب بِھیڑ کے سبب سے اُس کو اندر لے جانے کی راہ نہ پائی تو کوٹھے پر چڑھ کر کھپریل میں سے اُس کو کھٹولے سمیت بِیچ میں یِسُوعؔ کے سامنے اُتار دِیا۔ 20اُس نے اُن کا اِیمان دیکھ کر کہا کہ اَے آدمی! تیرے گُناہ مُعاف ہُوئے۔
21اِس پر فقِیہہ اور فریسی سوچنے لگے کہ یہ کَون ہے جو کُفر بَکتا ہے؟ خُدا کے سِوا اَور کَون گُناہ مُعاف کر سکتا ہے؟
22یِسُوعؔ نے اُن کے خیالوں کو معلُوم کر کے جواب میں اُن سے کہا تُم اپنے دِلوں میں کیا سوچتے ہو؟ 23آسان کیا ہے؟ یہ کہنا کہ تیرے گُناہ مُعاف ہُوئے یا یہ کہنا کہ اُٹھ اور چل پِھر؟ 24لیکن اِس لِئے کہ تُم جانو کہ اِبنِ آدمؔ کو زمِین پر گُناہ مُعاف کرنے کا اِختیار ہے (اُس نے مَفلُوج سے کہا) مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ اور اپنا کھٹولا اُٹھا کر اپنے گھر جا۔
25اور وہ اُسی دَم اُن کے سامنے اُٹھا اور جِس پر پڑا تھا اُسے اُٹھا کر خُدا کی تمجِید کرتا ہُؤا اپنے گھر چلا گیا۔ 26وہ سب کے سب بڑے حَیران ہُوئے اور خُدا کی تمجِید کرنے لگے اور بُہت ڈر گئے اور کہنے لگے کہ آج ہم نے عجِیب باتیں دیکِھیں۔
یِسُوع لاوی کو بُلاتا ہے
(متّی ۹‏:۹‏-۱۳؛ مرقس ۲‏:۱۳‏-۱۷)
27اِن باتوں کے بعد وہ باہر گیا اور لاوؔی نام ایک محصُول لینے والے کو محصُول کی چَوکی پر بَیٹھے دیکھا اور اُس سے کہا میرے پِیچھے ہو لے۔ 28وہ سب کُچھ چھوڑ کر اُٹھا اور اُس کے پِیچھے ہو لِیا۔
29پِھر لاوؔی نے اپنے گھر میں اُس کی بڑی ضِیافت کی اور محصُول لینے والوں اور اَوروں کا جو اُن کے ساتھ کھانا کھانے بَیٹھے تھے بڑا مَجمع تھا۔ 30اور فریسی اور اُن کے فقِیہہ اُس کے شاگِردوں سے یہ کہہ کر بُڑبُڑانے لگے کہ تُم کیوں محصُول لینے والوں اور گُنہگاروں کے ساتھ کھاتے پیتے ہو؟
31یِسُوعؔ نے جواب میں اُن سے کہا کہ تندرُستوں کو طبِیب کی ضرُورت نہیں بلکہ بِیماروں کو۔ 32مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گُنہگاروں کو تَوبہ کے لِئے بُلانے آیا ہُوں۔
روزہ کے بارے میں سوال
(متّی ۹‏:۱۴‏-۱۷؛ مرقس ۲‏:۱۸‏-۲۲)
33اور اُنہوں نے اُس سے کہا کہ یُوحنّا کے شاگِرد اکثر روزہ رکھتے اور دُعائیں کِیا کرتے ہیں اور اِسی طرح فریسیوں کے بھی مگر تیرے شاگِرد کھاتے پِیتے ہیں۔
34یِسُوعؔ نے اُن سے کہا کیا تُم براتِیوں سے جب تک دُلہا اُن کے ساتھ ہے روزہ رکھوا سکتے ہو؟ 35مگر وہ دِن آئیں گے اور جب دُلہا اُن سے جُدا کِیا جائے گا تب اُن دِنوں میں وہ روزہ رکھّیں گے۔
36اور اُس نے اُن سے ایک تمثِیل بھی کہی کہ کوئی آدَمی نئی پوشاک میں سے پھاڑ کر پُرانی پوشاک میں پَیوند نہیں لگاتا ورنہ نئی بھی پھٹے گی اور اُس کا پَیوند پُرانی میں میل بھی نہ کھائے گا۔ 37اور کوئی شخص نئی مَے پُرانی مَشکوں میں نہیں بھرتا نہیں تو نئی مَے مَشکوں کو پھاڑ کر خُود بھی بہ جائے گی اور مَشکیں بھی برباد ہو جائیں گی۔ 38بلکہ نئی مَے نئی مَشکوں میں بھرنا چاہئے۔ 39اور کوئی آدمی پُرانی مَے پی کر نئی کی خَواہِش نہیں کرتا کیونکہ کہتا ہے کہ پُرانی ہی اچھّی ہے۔
سبت کے بارے میں سوال
(متّی ۱۲‏:۱‏-۸؛ مرقس ۲‏:۲۳‏-۲۸)
1پِھر سبت کے دِن یُوں ہُؤا کہ وہ کھیتوں میں ہو کر جا رہا تھا اور اُس کے شاگِرد بالیں توڑ توڑ کر اور ہاتھوں سے مَل مَل کر کھاتے جاتے تھے۔ 2اور فریسیوں میں سے بعض کہنے لگے تُم وہ کام کیوں کرتے ہو جو سَبت کے دِن کرنا روا نہیں؟
3یِسُوعؔ نے جواب میں اُن سے کہا کیا تُم نے یہ بھی نہیں پڑھا کہ جب داؤُد اور اُس کے ساتھی بُھوکے تھے تو اُس نے کیا کِیا۔ 4وہ کیوں کر خُدا کے گھر میں گیا اور نذر کی روٹِیاں لے کر کھائِیں جِن کو کھانا کاہِنوں کے سِوا اَور کِسی کو رَوا نہیں اور اپنے ساتِھیوں کو بھی دِیں؟
5پِھر اُس نے اُن سے کہا کہ اِبنِ آدمؔ سبت کا مالِک ہے۔
سُوکھے ہاتھ والا آدمی
(متّی ۱۲‏:۹‏-۱۴؛ مرقس ۳‏:۱‏-۶)
6اور یُوں ہُؤا کہ کِسی اَور سبت کو وہ عِبادت خانہ میں داخِل ہو کر تعلِیم دینے لگا اور وہاں ایک آدمی تھا جِس کا دہنا ہاتھ سُوکھ گیا تھا۔ 7اور فقِیہہ اور فریسی اُس کی تاک میں تھے کہ آیا سبت کے دِن اچھّا کرتا ہے یا نہیں تاکہ اُس پر اِلزام لگانے کا مَوقع پائیں۔ 8مگر اُس کو اُن کے خیال معلُوم تھے۔ پس اُس نے اُس آدمی سے جِس کا ہاتھ سُوکھا تھا کہا اُٹھ اور بِیچ میں کھڑا ہو۔ وہ اُٹھ کھڑا ہُؤا۔ 9یِسُوعؔ نے اُن سے کہا مَیں تُم سے یہ پُوچھتا ہُوں کہ آیا سبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا؟ جان بچانا یا ہلاک کرنا؟ 10اور اُن سب پر نظر کر کے اُس سے کہا اپنا ہاتھ بڑھا۔ اُس نے بڑھایا اور اُس کا ہاتھ درُست ہو گیا۔
11وہ آپے سے باہر ہو کر ایک دُوسرے سے کہنے لگے کہ ہم یِسُوعؔ کے ساتھ کیا کریں؟
یِسُوع بارہ رسُول چُنتا ہے
(متّی ۱۰‏:۱‏-۴؛ مرقس ۳‏:۱۳‏-۱۹)
12اور اُن دِنوں میں اَیسا ہُؤا کہ وہ پہاڑ پر دُعا کرنے کو نِکلا اور خُدا سے دُعا کرنے میں ساری رات گُذاری۔ 13جب دِن ہُؤا تو اُس نے اپنے شاگِردوں کو پاس بُلا کر اُن میں سے بارہ چُن لِئے اور اُن کو رسُول کا لَقب دِیا۔ 14یعنی شمعُوؔن جِس کا نام اُس نے پطرؔس بھی رکھّا اور اُس کا بھائی اندرؔیاس اَور یعقُوبؔ اور یُوحنّا اور فِلِپُّس اور برتُلماؔئی۔ 15اور متّی اور توما اور حلفئی کا بیٹا یعقُوب اور شمعُون جو زیلوؔتیس کہلاتا تھا۔ 16اور یعقُوبؔ کا بیٹا یہُوداؔہ اور یہُوداؔہ اِسکریُوتی جو اُس کا پکڑوانے والا ہُؤا۔
یِسُوع تعلِیم دیتا اور شِفا دیتا ہے
(متّی ۴‏:۲۳‏-۲۵)
17اور وہ اُن کے ساتھ اُتر کر ہموار جگہ پر کھڑا ہُؤا اور اُس کے شاگِردوں کی بڑی جماعت اور لوگوں کی بڑی بِھیڑ وہاں تھی جو سارے یہُودیہ اور یروشلِیم اور صُور اور صَیدا کے بحری کنارے سے اُس کی سُننے اور اپنی بِیمارِیوں سے شِفا پانے کے لِئے اُس کے پاس آئی تھی۔ 18اور جو ناپاک رُوحوں سے دُکھ پاتے تھے وہ اچھّے کِئے گئے۔ 19اور سب لوگ اُسے چُھونے کی کوشِش کرتے تھے کیونکہ قُوّت اُس سے نِکلتی اور سب کو شِفا بخشتی تھی۔
مُبارک حالی اور زبُوں حالی
(متّی ۵‏:۱‏-۱۲)
20پِھر اُس نے اپنے شاگِردوں کی طرف نظر کر کے کہا
مُبارک ہو تُم جو غرِیب ہو
کیونکہ خُدا کی بادشاہی تُمہاری ہے۔
21مُبارک ہو تُم جو اَب بُھوکے ہو
کیونکہ آسُودہ ہو گے۔
مُبارک ہو تُم جو اَب روتے ہو
کیونکہ ہنسو گے۔
22جب اِبنِ آدمؔ کے سبب سے لوگ تُم سے عداوت رکھّیں گے اور تُمہیں خارِج کر دیں گے اور لَعن طَعن کریں گے اور تُمہارا نام بُرا جان کر کاٹ دیں گے تو تُم مُبارک ہو گے۔ 23اُس دِن خُوش ہونا اور خُوشی کے مارے اُچھلنا۔ اِس لِئے کہ دیکھو آسمان پر تُمہارا اَجر بڑا ہے کیونکہ اُن کے باپ دادا نبِیوں کے ساتھ بھی اَیسا ہی کِیا کرتے تھے۔
24مگر افسوس تُم پر جو دَولت مند ہو
کیونکہ تُم اپنی تسلّی پا چُکے۔
25افسوس تُم پر جو اَب سیر ہو
کیونکہ بُھوکے ہو گے۔
افسوس تُم پر جو اَب ہنستے ہو
کیونکہ ماتم کرو گے اور روؤ گے۔
26افسوس تُم پر جب سب لوگ تُمہیں بَھلا کہیں کیونکہ اُن کے باپ دادا جُھوٹے نبِیوں کے ساتھ بھی اَیسا ہی کِیا کرتے تھے۔
دُشمنوں کے لِئے مُحبّت
(متّی ۵‏:۳۸‏-۴۸؛ ۷‏:۱۲)
27لیکن مَیں تُم سُننے والوں سے کہتا ہُوں کہ اپنے دُشمنوں سے محُبّت رکھّو۔ جو تُم سے عداوت رکھّیں اُن کا بھلا کرو۔ 28جو تُم پر لَعنت کریں اُن کے لِئے برکت چاہو۔ جو تُمہاری تحقِیر کریں اُن کے لِئے دُعا کرو۔ 29جو تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے دُوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے اور جو تیرا چوغہ لے اُس کو کُرتہ لینے سے بھی منع نہ کر۔ 30جو کوئی تُجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تیرا مال لے لے اُس سے طلب نہ کر۔ 31اور جَیسا تُم چاہتے ہو کہ لوگ تُمہارے ساتھ کریں تُم بھی اُن کے ساتھ وَیسا ہی کرو۔
32اگر تُم اپنے محُبّت رکھنے والوں ہی سے مُحبّت رکھّو تو تُمہارا کیا اِحسان ہے؟ کیونکہ گُنہگار بھی اپنے محُبّت رکھنے والوں سے مُحبّت رکھتے ہیں۔ 33اور اگر تُم اُن ہی کا بَھلا کرو جو تُمہارا بَھلا کریں تو تُمہارا کیا اِحسان ہے؟ کیونکہ گُنہگار بھی اَیسا ہی کرتے ہیں۔ 34اور اگر تُم اُن ہی کو قرض دو جِن سے وصُول ہونے کی اُمّید رکھتے ہو تو تُمہارا کیا اِحسان ہے؟ گُنہگار بھی گُنہگاروں کو قرض دیتے ہیں تاکہ پُورا وصُول کر لیں۔ 35مگر تُم اپنے دُشمنوں سے مُحبّت رکھّو اور بَھلا کرو اور بغَیر نااُمّید ہُوئے قرض دو تو تُمہارا اَجر بڑا ہو گا اور تُم خُدا تعالےٰ کے بیٹے ٹھہرو گے کیونکہ وہ ناشُکروں اور بدوں پر بھی مِہربان ہے۔ 36جَیسا تُمہارا باپ رحِیم ہے تُم بھی رحم دِل ہو۔
عَیب جوئی
(متّی ۷‏:۱‏-۵)
37عَیب جوئی نہ کرو۔ تُمہاری بھی عَیب جوئی نہ کی جائے گی۔ مُجرِم نہ ٹھہراؤ۔ تُم بھی مُجرِم نہ ٹھہرائے جاؤ گے۔ خلاصی دو۔ تُم بھی خلاصی پاؤ گے۔ 38دِیا کرو۔ تُمہیں بھی دِیا جائے گا۔ اچھّا پَیمانہ داب داب کر اور ہِلا ہِلا کر اور لبریز کر کے تُمہارے پلّے میں ڈالیں گے کیونکہ جِس پَیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تُمہارے لِئے ناپا جائے گا۔
39اور اُس نے اُن سے ایک تمثِیل بھی کہی کہ کیا اندھے کو اندھا راہ دِکھا سکتا ہے؟ کیا دونوں گڑھے میں نہ گِریں گے؟ 40شاگِرد اپنے اُستاد سے بڑا نہیں بلکہ ہر ایک جب کامِل ہُؤا تو اپنے اُستاد جَیسا ہو گا۔
41تُو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تِنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتِیر پر غَور نہیں کرتا؟ 42اور جب تُو اپنی آنکھ کے شہتِیر کو نہیں دیکھتا تو اپنے بھائی سے کیوں کر کہہ سکتا ہے کہ بھائی لا اُس تِنکے کو جو تیری آنکھ میں ہے نِکال دُوں؟ اَے رِیاکار! پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتِیر نِکال۔ پِھر اُس تِنکے کو جو تیرے بھائی کی آنکھ میں ہے اچھّی طرح دیکھ کر نِکال سکے گا۔
درخت اور اُس کا پَھل
(متّی ۷‏:۱۶‏-۲۰؛ ۱۲‏:۳۳‏-۳۵)
43کیونکہ کوئی اچھّا درخت نہیں جو بُرا پَھل لائے اور نہ کوئی بُرا درخت ہے جو اچھّا پَھل لائے۔ 44ہر درخت اپنے پَھل سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ جھاڑِیوں سے انجِیر نہیں توڑتے اور نہ جھڑبیری سے انگُور۔ 45اچھّا آدمی اپنے دِل کے اچّھے خزانہ سے اچھّی چِیزیں نِکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے خزانہ سے بُری چِیزیں نِکالتا ہے کیونکہ جو دِل میں بھرا ہے وُہی اُس کے مُنہ پر آتا ہے۔
دو گھر بنانے والے
(متّی ۷‏:۲۴‏-۲۷)
46جب تُم میرے کہنے پر عمل نہیں کرتے تو کیوں مُجھے خُداوند خُداوند کہتے ہو؟ 47جو کوئی میرے پاس آتا اور میری باتیں سُن کر اُن پر عمل کرتا ہے مَیں تُمہیں جتاتا ہُوں کہ وہ کِس کی مانِند ہے۔ 48وہ اُس آدمی کی مانِند ہے جِس نے گھر بناتے وقت زمِین گہری کھود کر چٹان پر بُنیاد ڈالی۔ جب طُوفان آیا اور سَیلاب اُس گھر سے ٹکرایا تو اُسے ہِلا نہ سکا کیونکہ وہ مضبُوط بنا ہُؤا تھا۔ 49لیکن جو سُن کر عمل میں نہیں لاتا وہ اُس آدمی کی مانِند ہے جِس نے زمِین پر گھر کو بے بُنیاد بنایا۔ جب سَیلاب اُس پر زور سے آیا تو وہ فی الفَور گِر پڑا اور وہ گھر بِالکُل برباد ہُؤا۔
یِسُوع رُومی صُوبہ دار کے نَوکر کو شِفا دیتا ہے
(متّی ۸‏:۵‏-۱۳)
1جب وہ لوگوں کو اپنی سب باتیں سُنا چُکا تو کَفرؔنحُوم میں آیا۔ 2اور کِسی صُوبہ دار کا نَوکر جو اُس کو عزِیز تھا بِیماری سے مَرنے کو تھا۔ 3اُس نے یِسُوعؔ کی خبر سُن کر یہُودِیوں کے کئی بزُرگوں کو اُس کے پاس بھیجا اور اُس سے درخواست کی کہ آ کر میرے نَوکر کو اچھّا کر۔ 4وہ یِسُوعؔ کے پاس آئے اور اُس کی بڑی مِنّت کر کے کہنے لگے کہ وہ اِس لائِق ہے کہ تُو اُس کی خاطِر یہ کرے۔ 5کیونکہ وہ ہماری قَوم سے مُحبّت رکھتا ہے اور ہمارے عِبادت خانہ کو اُسی نے بنوایا۔
6یِسُوعؔ اُن کے ساتھ چلا مگر جب وہ گھر کے قرِیب پُہنچا تو صُوبہ دار نے بعض دوستوں کی معرفت اُسے یہ کہلا بھیجا کہ اَے خُداوند تکلِیف نہ کر کیونکہ مَیں اِس لائِق نہیں کہ تُو میری چھت کے نِیچے آئے۔ 7اِسی سبب سے مَیں نے اپنے آپ کو بھی تیرے پاس آنے کے لائِق نہ سمجھا بلکہ زُبان سے کہہ دے تو میرا خادِم شِفا پائے گا۔ 8کیونکہ مَیں بھی دُوسرے کے اِختیار میں ہُوں اور سِپاہی میرے ماتحت ہیں اور جب ایک سے کہتا ہُوں جا تو وہ جاتا ہے اور دُوسرے سے آ تو وہ آتا ہے اور اپنے نَوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔
9یِسُوعؔ نے یہ سُن کر اُس پر تعجُّب کِیا اور پِھر کر اُس بِھیڑ سے جو اُس کے پِیچھے آتی تھی کہا مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ مَیں نے اَیسا اِیمان اِسرائیلؔ میں بھی نہیں پایا۔
10اور بھیجے ہُوئے لوگوں نے گھر میں واپس آ کر اُس نَوکر کو تندرُست پایا۔
یِسُوع بیوہ کے بیٹے کو مُردوں میں سے جِلاتا ہے
11تھوڑے عرصہ کے بعد اَیسا ہُؤا کہ وہ نائِین نام ایک شہر کو گیا اور اُس کے شاگِرد اور بُہت سے لوگ اُس کے ہمراہ تھے۔ 12جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدِیک پُہنچا تو دیکھو ایک مُردہ کو باہر لِئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اِکلَوتا بیٹا تھا اور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بُہتیرے لوگ اُس کے ساتھ تھے۔ 13اُسے دیکھ کر خُداوند کو ترس آیا اور اُس سے کہا مت رو۔ 14پِھر اُس نے پاس آ کر جِنازہ کو چُھؤا اور اُٹھانے والے کھڑے ہو گئے اور اُس نے کہا اَے جوان مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ۔ 15وہ مُردہ اُٹھ بَیٹھا اور بولنے لگا اور اُس نے اُسے اُس کی ماں کو سَونپ دِیا۔
16اور سب پر دہشت چھا گئی اور وہ خُدا کی تمجِید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہُؤا ہے اور خُدا نے اپنی اُمّت پر توجُّہ کی ہے۔
17اور اُس کی نِسبت یہ خبر سارے یہُودیہ اور تمام گِرد و نواح میں پَھیل گئی۔
یُوحنّا بپتسِمہ دینے والے کے قاصد
(متّی ۱۱‏:۲‏-۱۹)
18اور یُوحنّا کو اُس کے شاگِردوں نے اِن سب باتوں کی خبر دی۔ 19اِس پر یُوحنّا نے اپنے شاگِردوں میں سے دو کو بُلا کر خُداوند کے پاس یہ پُوچھنے کو بھیجا کہ آنے والا تُو ہی ہے یا ہم دُوسرے کی راہ دیکھیں؟
20اُنہوں نے اُس کے پاس آ کر کہا یُوحنّا بپتِسمہ دینے والے نے ہمیں تیرے پاس یہ پُوچھنے کو بھیجا ہے کہ آنے والا تُو ہی ہے یا ہم دُوسرے کی راہ دیکھیں؟
21اُسی گھڑی اُس نے بُہتوں کو بِیمارِیوں اور آفتوں اور بُری رُوحوں سے نجات بخشی اور بُہت سے اندھوں کو بِینائی عطا کی۔ 22اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ جو کُچھ تُم نے دیکھا اور سُنا ہے جا کر یُوحنّا سے بیان کر دو کہ اندھے دیکھتے ہیں۔ لنگڑے چلتے پِھرتے ہیں۔ کوڑھی پاک صاف کِئے جاتے ہیں۔ بہرے سُنتے ہیں۔ مُردے زِندہ کِئے جاتے ہیں۔ غرِیبوں کو خُوشخبری سُنائی جاتی ہے۔ 23اور مُبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔
24جب یُوحنّا کے قاصِد چلے گئے تو یِسُوعؔ یُوحنّا کے حق میں لوگوں سے کہنے لگا کہ تُم بیابان میں کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ہوا سے ہِلتے ہُوئے سرکنڈے کو؟ 25تو پِھر کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا مہِین کپڑے پہنے ہُوئے شخص کو؟ دیکھو جو چمک دار پوشاک پہنتے اور عَیش و عِشرت میں رہتے ہیں وہ بادشاہی محلّوں میں ہوتے ہیں۔ 26تو پِھر تُم کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ایک نبی؟ ہاں مَیں تُم سے کہتا ہُوں بلکہ نبی سے بڑے کو۔ 27یہ وُہی ہے جِس کی بابت لِکھا ہے کہ دیکھ مَیں اپنا پَیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہُوں جو تیری راہ تیرے آگے تیّار کرے گا۔ 28مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جو عَورتوں سے پَیدا ہُوئے ہیں اُن میں یُوحنّا بپتِسمہ دینے والے سے کوئی بڑا نہیں لیکن جو خُدا کی بادشاہی میں چھوٹا ہے وہ اُس سے بڑا ہے۔
29اور سب عام لوگوں نے جب سُنا تو اُنہوں نے اور محصُول لینے والوں نے بھی یُوحنّا کا بپتِسمہ لے کر خُدا کو راست باز مان لِیا۔ 30مگر فریسیوں اور شرع کے عالِموں نے اُس سے بپتِسمہ نہ لے کر خُدا کے اِرادہ کو اپنی نِسبت باطِل کر دِیا۔
31پس اِس زمانہ کے آدمِیوں کو مَیں کِس سے تشبِیہ دُوں اور وہ کِس کی مانِند ہیں؟ 32اُن لڑکوں کی مانِند ہیں جو بازار میں بَیٹھے ہُوئے ایک دُوسرے کو پُکار کر کہتے ہیں کہ ہم نے تُمہارے لِئے بانسلی بجائی اور تُم نہ ناچے۔ ہم نے ماتم کِیا اور تُم نہ روئے۔ 33کیونکہ یُوحنّا بپتِسمہ دینے والا نہ تو روٹی کھاتا ہُؤا آیا نہ مَے پِیتا ہُؤا اور تُم کہتے ہو کہ اُس میں بدرُوح ہے۔ 34اِبنِ آدمؔ کھاتا پِیتا آیا اور تُم کہتے ہو کہ دیکھو کھاؤُ اور شرابی آدمی محصُول لینے والوں اور گُنہگاروں کا یار۔ 35لیکن حِکمت اپنے سب لڑکوں کی طرف سے راست ثابِت ہُوئی۔
یِسُوع شمعُون فریسی کے گھر میں
36پِھر کِسی فریسی نے اُس سے درخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا کھا۔ پس وہ اُس فریسی کے گھر جا کر کھانا کھانے بَیٹھا۔ 37تو دیکھو ایک بدچلن عَورت جو اُس شہر کی تھی۔ یہ جان کر کہ وہ اُس فریسی کے گھر میں کھانا کھانے بَیٹھا ہے سنگِ مرمر کے عِطردان میں عِطر لائی۔ 38اور اُس کے پاؤں کے پاس روتی ہُوئی پِیچھے کھڑی ہو کر اُس کے پاؤں آنسُوؤں سے بھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے اُن کو پونچھا اور اُس کے پاؤں بُہت چُومے اور اُن پر عِطر ڈالا۔ 39اُس کی دعوت کرنے والا فریسی یہ دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اُسے چُھوتی ہے وہ کَون اور کَیسی عَورت ہے کیونکہ بدچلن ہے۔
40یِسُوعؔ نے جواب میں اُس سے کہا اَے شمعُوؔن مُجھے تُجھ سے کُچھ کہنا ہے۔
اُس نے کہا اَے اُستاد کہہ۔
41کِسی ساہُوکار کے دو قرض دار تھے۔ ایک پانسَو دِینار کا دُوسرا پچاس کا۔ 42جب اُن کے پاس ادا کرنے کو کُچھ نہ رہا تو اُس نے دونوں کو بخش دِیا۔ پس اُن میں سے کَون اُس سے زِیادہ مُحبّت رکھّے گا؟
43شمعُوؔن نے جواب میں کہا میری دانِست میں وہ جِسے اُس نے زِیادہ بخشا۔
اُس نے اُس سے کہا تُو نے ٹِھیک فَیصلہ کِیا۔ 44اور اُس عَورت کی طرف پِھر کر اُس نے شمعُوؔن سے کہا کیا تُو اِس عَورت کو دیکھتا ہے؟ مَیں تیرے گھر میں آیا۔ تُو نے میرے پاؤں دھونے کو پانی نہ دِیا مگر اِس نے میرے پاؤں آنسُوؤں سے بھگو دِئے اور اپنے بالوں سے پونچھے۔ 45تُو نے مُجھ کو بوسہ نہ دِیا مگر اِس نے جب سے مَیں آیا ہُوں میرے پاؤں چُومنا نہ چھوڑا۔ 46تُو نے میرے سر میں تیل نہ ڈالا مگر اِس نے میرے پاؤں پر عِطر ڈالا ہے۔ 47اِسی لِئے مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ اِس کے گُناہ جو بُہت تھے مُعاف ہُوئے کیونکہ اِس نے بُہت محُبّت کی مگر جِس کے تھوڑے گُناہ مُعاف ہُوئے وہ تھوڑی محُبّت کرتا ہے
48اور اُس عَورت سے کہا تیرے گُناہ مُعاف ہُوئے
49اِس پر وہ جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بَیٹھے تھے اپنے جی میں کہنے لگے کہ یہ کَون ہے جو گُناہ بھی مُعاف کرتا ہے؟
50مگر اُس نے عَورت سے کہا تیرے اِیمان نے تُجھے بچا لِیا ہے۔ سلامت چلی جا۔
یِسُوع کے ساتھ ساتھ رہنے والی عَورتیں
1تھوڑے عرصہ کے بعد یُوں ہُؤا کہ وہ مُنادی کرتا اور خُدا کی بادشاہی کی خُوشخبری سُناتا ہُؤا شہر شہر اور گاؤں گاؤں پِھرنے لگا اور وہ بارہ اُس کے ساتھ تھے۔ 2اور بعض عَورتیں جِنہوں نے بُری رُوحوں اور بِیمارِیوں سے شِفا پائی تھی یعنی مریمؔ جو مگدلینی کہلاتی تھی جِس میں سے سات بدرُوحیں نِکلی تِھیں۔ 3اور یُوأنہ ہیرودؔیس کے دِیوان خُوزؔہ کی بِیوی اور سُوسنّاؔہ اور بُہتیری اَور عَورتیں بھی تِھیں جو اپنے مال سے اُن کی خِدمت کرتی تِھیں۔
بِیج بونے والے کی تمثِیل
(متّی ۱۳‏:۱‏-۹؛ مرقس ۴‏:۱‏-۹)
4پِھر جب بڑی بِھیڑ جمع ہُوئی اور ہر شہر کے لوگ اُس کے پاس چلے آتے تھے اُس نے تمثِیل میں کہا کہ
5ایک بونے والا اپنا بِیج بونے نِکلا اور بوتے وقت کُچھ راہ کے کنارے گِرا اور رَوندا گیا اور ہوا کے پرِندوں نے اُسے چُگ لِیا۔ 6اور کُچھ چٹان پر گِرا اور اُگ کر سُوکھ گیا اِس لِئے کہ اُس کو تَری نہ پُہنچی۔ 7اور کُچھ جھاڑِیوں میں گِرا اور جھاڑِیوں نے ساتھ ساتھ بڑھ کر اُسے دبا لِیا۔ 8اور کُچھ اچھّی زمِین میں گِرا اور اُگ کر سَو گُنا پَھل لایا۔
یہ کہہ کر اُس نے پُکارا۔ جِس کے سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے!
تمثیِلوں کا مقصد
(متّی ۱۳‏:۱۰‏-۱۷؛ مرقس ۴‏:۱۰‏-۱۲)
9اُس کے شاگِردوں نے اُس سے پُوچھا کہ یہ تمثِیل کیا ہے؟ 10اُس نے کہا تُم کو خُدا کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر اَوروں کو تمثِیلوں میں سُنایا جاتا ہے تاکہ دیکھتے ہُوئے نہ دیکھیں اور سُنتے ہُوئے نہ سمجھیں۔
یِسُوع بِیج بونے والے کی تمثِیل سمجھاتا ہے
(متّی ۱۳‏:۱۸‏-۲۳؛ مرقس ۴‏:۱۳‏-۲۰)
11وہ تمثِیل یہ ہے کہ بِیج خُدا کا کلام ہے۔ 12راہ کے کنارے کے وہ ہیں جِنہوں نے سُنا۔ پِھر اِبلِیس آ کر کلام کو اُن کے دِل سے چِھین لے جاتا ہے۔ اَیسا نہ ہو کہ اِیمان لا کر نجات پائیں۔ 13اور چٹان پر کے وہ ہیں جو سُن کر کلام کو خُوشی سے قبُول کر لیتے ہیں لیکن جڑ نہیں رکھتے مگر کُچھ عرصہ تک اِیمان رکھ کر آزمایش کے وقت پِھر جاتے ہیں۔ 14اور جو جھاڑِیوں میں پڑا اُس سے وہ لوگ مُراد ہیں جِنہوں نے سُنا لیکن ہوتے ہوتے اِس زِندگی کی فِکروں اور دَولت اور عَیش و عِشرت میں پھنس جاتے ہیں اور اُن کا پَھل پَکتا نہیں۔ 15مگر اچھّی زمِین کے وہ ہیں جو کلام کو سُن کر عُمدہ اور نیک دِل میں سنبھالے رہتے اور صبر سے پَھل لاتے ہیں۔
چراغ برتن کے نِیچے
(مرقس ۴‏:۲۱‏-۲۵)
16کوئی شخص چراغ جلا کر برتن سے نہیں چِھپاتا نہ پلنگ کے نِیچے رکھتا ہے بلکہ چراغ دان پر رکھتا ہے تاکہ اندر آنے والوں کو رَوشنی دِکھائی دے۔
17کیونکہ کوئی چِیز چُھپی نہیں جو ظاہِر نہ ہو جائے گی اور نہ کوئی اَیسی پوشِیدہ بات ہے جو معلُوم نہ ہو گی اور ظہُور میں نہ آئے گی۔
18پس خبردار رہو کہ تُم کِس طرح سُنتے ہو کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے دِیا جائے گا اور جِس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی لے لِیا جائے گا جو اپنا سمجھتا ہے۔
یِسُوع کی ماں اور بھائی
(متّی ۱۲‏:۴۶‏-۵۰؛ مرقس ۳‏:۳۱‏-۳۵)
19پِھر اُس کی ماں اور اُس کے بھائی اُس کے پاس آئے مگر بِھیڑ کے سبب سے اُس تک پہنچ نہ سکے۔ 20اور اُسے خبر دی گئی کہ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تُجھ سے مِلنا چاہتے ہیں۔
21اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ میری ماں اور میرے بھائی تو یہ ہیں جو خُدا کا کلام سُنتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔
یِسُوع طُوفان کو تھما دیتا ہے
(متّی ۸‏:۲۳‏-۲۷؛ مرقس ۴‏:۳۵‏-۴۱)
22پِھر ایک دِن اَیسا ہُؤا کہ وہ اور اُس کے شاگِرد کشتی میں سوار ہُوئے اور اُس نے اُن سے کہا آؤ جِھیل کے پار چلیں۔ پس وہ روانہ ہُوئے۔ 23مگر جب کشتی چلی جاتی تھی تو وہ سو گیا اور جِھیل پر بڑی آندھی آئی اور کشتی پانی سے بھری جاتی تھی اور وہ خطرہ میں تھے۔ 24اُنہوں نے پاس آ کر اُسے جگایا اور کہا کہ صاحِب صاحِب ہم ہلاک ہُوئے جاتے ہیں!
اُس نے اُٹھ کر ہوا کو اور پانی کے زور شور کو جِھڑکا اور دونوں تھم گئے اور امن ہو گیا۔ 25اُس نے اُن سے کہا تُمہارا اِیمان کہاں گیا؟
وہ ڈر گئے اور تعجُّب کر کے آپس میں کہنے لگے کہ یہ کَون ہے؟ یہ تو ہوا اور پانی کو حُکم دیتا ہے اور وہ اُس کی مانتے ہیں۔
یِسُوع ایک بدرُوح گرفتہ آدمی کو شِفا دیتا ہے
(متّی ۸‏:۲۸‏-۳۴؛ مرقس ۵‏:۱‏-۲۰)
26پِھر وہ گراسینیوؔں کے عِلاقہ میں جا پہنچے جو اُس پار گلِیل کے سامنے ہے۔ 27جب وہ کنارے پر اُترا تو اُس شہر کا ایک مَرد اُسے مِلا جِس میں بدرُوحیں تِھیں اور اُس نے بڑی مُدّت سے کپڑے نہ پہنے تھے اور وہ گھر میں نہیں بلکہ قبروں میں رہا کرتا تھا۔ 28وہ یِسُوعؔ کو دیکھ کر چِلّایا اور اُس کے آگے گِر کر بُلند آواز سے کہنے لگا اَے یِسُوعؔ! خُدا تعالےٰ کے بیٹے۔ مُجھے تُجھ سے کیا کام؟ تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ مُجھے عذاب میں نہ ڈال۔ 29کیونکہ وہ اُس ناپاک رُوح کو حُکم دیتا تھا کہ اِس آدمی میں سے نِکل جا۔ اِس لِئے کہ اُس نے اُس کو اکثر پکڑا تھا اور ہر چند لوگ اُسے زنجِیروں اور بیڑیوں سے جکڑ کر قابُو میں رکھتے تھے تَو بھی وہ زنجِیروں کو توڑ ڈالتا تھا اور بدرُوح اُس کو بیابانوں میں بھگائے پِھرتی تھی۔
30یِسُوعؔ نے اُس سے پُوچھا تیرا کیا نام ہے؟
اُس نے کہا لشکر کیونکہ اُس میں بُہت سی بدرُوحیں تِھیں۔ 31اور وہ اُس کی مِنّت کرنے لگیں کہ ہمیں اتھاہ گڑھے میں جانے کا حُکم نہ دے۔
32وہاں پہاڑ پر سُؤروں کا ایک بڑا غول چر رہا تھا۔ اُنہوں نے اُس کی مِنّت کی کہ ہمیں اُن کے اندر جانے دے۔ اُس نے اُنہیں جانے دِیا۔ 33اور بدرُوحیں اُس آدمی میں سے نِکل کر سُؤروں کے اندر گئِیں اور غول کڑاڑے پر سے جھپٹ کر جِھیل میں جا پڑا اور ڈُوب مَرا۔
34یہ ماجرا دیکھ کر چرانے والے بھاگے اور جا کر شہر اور دیہات میں خبر دی۔ 35لوگ اُس ماجرے کے دیکھنے کو نِکلے اور یِسُوعؔ کے پاس آ کر اُس آدمی کو جِس میں سے بدرُوحیں نِکلی تِھیں کپڑے پہنے اور ہوش میں یِسُوعؔ کے پاؤں کے پاس بَیٹھے پایا اور ڈر گئے۔ 36اور دیکھنے والوں نے اُن کو خبر دی کہ جِس میں بدرُوحیں تِھیں وہ کِس طرح اچھّا ہُؤا۔ 37اور گراسینیوں کے گِرد و نواح کے سب لوگوں نے اُس سے درخواست کی کہ ہمارے پاس سے چلا جا کیونکہ اُن پر بڑی دہشت چھا گئی تھی۔ پس وہ کشتی میں بَیٹھ کر واپس گیا۔ 38لیکن جِس شخص میں سے بدرُوحیں نِکل گئی تِھیں وہ اُس کی مِنّت کر کے کہنے لگا کہ مُجھے اپنے ساتھ رہنے دے
مگر یِسُوعؔ نے اُسے رُخصت کر کے کہا۔ 39اپنے گھر کو لَوٹ کر لوگوں سے بیان کر کہ خُدا نے تیرے لِئے کَیسے بڑے کام کِئے۔
وہ روانہ ہو کر تمام شہر میں چرچا کرنے لگا کہ یِسُوعؔ نے میرے لِئے کَیسے بڑے کام کِئے۔
یائِیر کی بیٹی اور یِسُوع کی پوشاک کو چُھونے والی عَورت
(متّی ۹‏:۱۸‏-۲۶؛ مرقس ۵‏:۲۱‏-۴۳)
40جب یِسُوعؔ واپس آ رہا تھا تو لوگ اُس سے خُوشی کے ساتھ مِلے کیونکہ سب اُس کی راہ تکتے تھے۔ 41اور دیکھو یائِیر نام ایک شخص جو عِبادت خانہ کا سردار تھا آیا اور یِسُوعؔ کے قدموں پر گِر کر اُس سے مِنّت کی کہ میرے گھر چل۔ 42کیونکہ اُس کی اِکلَوتی بیٹی جو قرِیباً بارہ برس کی تھی مَرنے کو تھی
اور جب وہ جا رہا تھا تو لوگ اُس پر گِرے پڑتے تھے۔ 43اور ایک عَورت نے جِس کے بارہ برس سے خُون جاری تھا اور اپنا سارا مال حکِیموں پر خرچ کر چُکی تھی اور کِسی کے ہاتھ سے اچھّی نہ ہو سکی تھی۔ 44اُس کے پِیچھے آ کر اُس کی پوشاک کا کنارہ چُھؤا اور اُسی دَم اُس کا خُون بہنا بند ہو گیا۔ 45اِس پر یِسُوعؔ نے کہا وہ کون ہے جِس نے مُجھے چُھؤا؟
جب سب اِنکار کرنے لگے تو پطرؔس اور اُس کے ساتِھیوں نے کہا کہ اَے صاحِب لوگ تُجھے دباتے اور تُجھ پر گِرے پڑتے ہیں۔
46مگر یِسُوعؔ نے کہا کہ کِسی نے مُجھے چُھؤا تو ہے کیونکہ مَیں نے معلُوم کِیا کہ قُوّت مُجھ سے نِکلی ہے۔ 47جب اُس عَورت نے دیکھا کہ مَیں چُھپ نہیں سکتی تو کانپتی ہُوئی آئی اور اُس کے آگے گِر کر سب لوگوں کے سامنے بیان کِیا کہ مَیں نے کِس سبب سے تُجھے چُھؤا اور کِس طرح اُسی دَم شِفا پا گئی۔ 48اُس نے اُس سے کہا بیٹی! تیرے اِیمان نے تُجھے اچھّا کِیا ہے۔ سلامت چلی جا۔
49وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ عِبادت خانہ کے سردار کے ہاں سے کِسی نے آ کر کہا کہ تیری بیٹی مَر گئی۔ اُستاد کو تکلِیف نہ دے۔
50یِسُوعؔ نے سُن کر اُسے جواب دِیا کہ خَوف نہ کر فقط اِعتقاد رکھ۔ وہ بچ جائے گی۔
51اور گھر میں پہنچ کر پطرؔس اور یُوحنّا اور یعقُوب اور لڑکی کے ماں باپ کے سِوا کِسی کو اپنے ساتھ اندر نہ جانے دِیا۔ 52اور سب اُس کے لِئے رو پِیٹ رہے تھے مگر اُس نے کہا۔ ماتم نہ کرو۔ وہ مَر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔
53وہ اُس پر ہنسنے لگے کیونکہ جانتے تھے کہ وہ مَر گئی ہے۔ 54مگر اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور پُکار کر کہا اَے لڑکی اُٹھ۔ 55اُس کی رُوح پِھر آئی اور وہ اُسی دَم اُٹھی۔ پِھر یِسُوعؔ نے حُکم دِیا کہ لڑکی کو کُچھ کھانے کو دِیا جائے۔ 56اُس کے ماں باپ حَیران ہُوئے اور اُس نے اُنہیں تاکِید کی کہ یہ ماجرا کِسی سے نہ کہنا۔
یِسُوع بارہ شاگِردوں کو بھیجتا ہے
(متّی ۱۰‏:۵‏-۱۵؛ مرقس ۶‏:۷‏-۱۳)
1پِھر اُس نے اُن بارہ کو بُلا کر اُنہیں سب بدرُوحوں پر اِختیار بخشا اور بِیماریوں کو دُور کرنے کی قُدرت دی۔ 2اور اُنہیں خُدا کی بادشاہی کی مُنادی کرنے اور بِیماروں کو اچھّا کرنے کے لِئے بھیجا۔ 3اور اُن سے کہا کہ راہ کے لِئے کُچھ نہ لینا۔ نہ لاٹھی۔ نہ جھولی۔ نہ روٹی۔ نہ رُوپیہ۔ نہ دو دو کُرتے رکھنا۔ 4اور جِس گھر میں داخِل ہو وہِیں رہنا اور وہِیں سے روانہ ہونا۔ 5اور جِس شہر کے لوگ تُمہیں قبُول نہ کریں۔ اُس شہر سے نِکلتے وقت اپنے پاؤں کی گَرد جھاڑ دینا تاکہ اُن پر گواہی ہو۔
6پس وہ روانہ ہو کر گاؤں گاؤں خُوشخبری سُناتے اور ہر جگہ شِفا دیتے پِھرے۔
ہیرودؔیس کی گھبراہٹ
(متّی ۱۴‏:۱‏-۱۲؛ مرقس ۶‏:۱۴‏-۲۹)
7اور چَوتھائی مُلک کا حاکِم ہیرودؔیس سب اَحوال سُن کر گھبرا گیا۔ اِس لِئے کہ بعض کہتے تھے کہ یُوحنّا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ 8اور بعض یہ کہ ایلیّاؔہ ظاہِر ہُؤا ہے اور بعض یہ کہ قدِیم نبِیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہے۔ 9مگر ہیرودؔیس نے کہا کہ یُوحنّا کا تو مَیں نے سر کٹوا دِیا۔ اب یہ کون ہے جِس کی بابت اَیسی باتیں سُنتا ہُوں؟ پس اُسے دیکھنے کی کوشِش میں رہا۔
یِسُوع پانچ ہزار کو کھانا کھلاتا ہے
(متّی ۱۴‏:۱۳‏-۲۱؛ مرقس ۶‏:۳۰‏-۴۴؛ یُوحنّا ۶‏:۱‏-۱۰)
10پِھر رسُولوں نے جو کُچھ کِیا تھا لَوٹ کر اُس سے بیان کِیا اور وہ اُن کو الگ لے کر بَیت صَیدا نام ایک شہر کو چلا گیا۔ 11یہ جان کر بِھیڑ اُس کے پِیچھے گئی اور وہ خُوشی کے ساتھ اُن سے مِلا اور اُن سے خُدا کی بادشاہی کی باتیں کرنے لگا اور جو شِفا پانے کے مُحتاج تھے اُنہیں شِفا بخشی۔
12جب دِن ڈھلنے لگا تو اُن بارہ نے آ کر اُس سے کہا کہ بِھیڑ کو رُخصت کر کہ چاروں طرف کے گاؤں اور بستیوں میں جا ٹِکیں اور کھانے کی تدبِیر کریں کیونکہ ہم یہاں وِیران جگہ میں ہیں۔
13اُس نے اُن سے کہا تُم ہی اُنہیں کھانے کو دو۔
اُنہوں نے کہا ہمارے پاس صرف پانچ روٹِیاں اور دو مچھلِیاں ہیں مگر ہاں ہم جا کر اِن سب لوگوں کے لِئے کھانا مول لے آئیں۔ 14کیونکہ وہ پانچ ہزار مَرد کے قرِیب تھے۔
اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا کہ اُن کو تخمِیناً پچاس پچاس کی قِطاروں میں بِٹھاؤ۔
15اُنہوں نے اُسی طرح کِیا اور سب کو بِٹھایا۔ 16پِھر اُس نے وہ پانچ روٹِیاں اور دو مچھلِیاں لِیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر اُن پر برکت بخشی اور توڑ کر اپنے شاگِردوں کو دیتا گیا کہ لوگوں کے آگے رکھّیں۔ 17اُنہوں نے کھایا اور سب سیر ہو گئے اور اُن کے بچے ہُوئے ٹُکڑوں کی بارہ ٹوکرِیاں اُٹھائی گئِیں۔
یِسُوع کے حق میں پطرس کا اعلان
(متّی ۱۶‏:۱۳‏-۱۹؛ مرقس ۸‏:۲۷‏-۲۹)
18جب وہ تنہائی میں دُعا کر رہا تھا اور شاگِرد اُس کے پاس تھے تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے اُن سے پُوچھا کہ لوگ مُجھے کیا کہتے ہیں؟
19اُنہوں نے جواب میں کہا یُوحنّا بپتِسمہ دینے والا اور بعض ایلیّاؔہ کہتے ہیں اور بعض یہ کہ قدِیم نبِیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہے۔
20اُس نے اُن سے کہا لیکن تُم مُجھے کیا کہتے ہو؟
پطرؔس نے جواب میں کہا کہ خُدا کا مسِیح۔
یِسُوع اپنے دُکھ اُٹھانے اور مَوت کا ذکر کرتا ہے
(متّی ۱۶‏:۲۰‏-۲۸؛ مرقس ۸‏:۳۰‏—۹‏:۱)
21اُس نے اُن کو تاکِید کر کے حُکم دِیا کہ یہ کِسی سے نہ کہنا۔ 22اور کہا ضرُور ہے کہ اِبنِ آدمؔ بُہت دُکھ اُٹھائے اور بزُرگ اور سردار کاہِن اور فقِیہہ اُسے ردّ کریں اور وہ قتل کِیا جائے اور تِیسرے دِن جی اُٹھے۔
23اور اُس نے سب سے کہا اگر کوئی میرے پِیچھے آنا چاہے تو اپنی خُودی سے اِنکار کرے اور ہر روز اپنی صلِیب اُٹھائے اور میرے پِیچھے ہو لے۔ 24کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطِر اپنی جان کھوئے وُہی اُسے بچائے گا۔ 25اور آدمی اگر ساری دُنیا کو حاصِل کرے اور اپنی جان کو کھو دے یا اُس کا نُقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائِدہ ہو گا؟ 26کیونکہ جو کوئی مُجھ سے اور میری باتوں سے شرمائے گا اِبنِ آدمؔ بھی جب اپنے اور اپنے باپ کے اور پاک فرِشتوں کے جلال میں آئے گا تو اُس سے شرمائے گا۔ 27لیکن مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اُن میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعض اَیسے ہیں کہ جب تک خُدا کی بادشاہی کو دیکھ نہ لیں مَوت کا مزہ ہرگِز نہ چکّھیں گے۔
یِسُوع کی صُورت کا بدل جانا
(متّی ۱۷‏:۱‏-۸؛ مرقس ۹‏:۲‏-۸)
28پِھر اِن باتوں کے کوئی آٹھ روز بعد اَیسا ہُؤا کہ وہ پطرؔس اور یُوحنّا اور یعقُوبؔ کو ہمراہ لے کر پہاڑ پر دُعا کرنے گیا۔ 29جب وہ دُعا کر رہا تھا تو اَیسا ہُؤا کہ اُس کے چِہرہ کی صُورت بدل گئی اور اُس کی پوشاک سفید برّاق ہو گئی۔ 30اور دیکھو دو شخص یعنی مُوسیٰ اور ایلیّاؔہ اُس سے باتیں کر رہے تھے۔ 31یہ جلال میں دِکھائی دِئے اور اُس کے اِنتقال کا ذِکر کرتے تھے جو یروشلِیم میں واقِع ہونے کو تھا۔ 32مگر پطرؔس اور اُس کے ساتھی نِیند میں پڑے تھے اور جب اچھّی طرح بیدار ہُوئے تو اُس کے جلال کو اور اُن دو شخصوں کو دیکھا جو اُس کے ساتھ کھڑے تھے۔ 33جب وہ اُس سے جُدا ہونے لگے تو اَیسا ہُؤا کہ پطرؔس نے یِسُوعؔ سے کہا اَے اُستاد ہمارا یہاں رہنا اچھّا ہے۔ پس ہم تِین ڈیرے بنائیں۔ ایک تیرے لِئے۔ ایک مُوسیٰ کے لِئے ایک ایلیّاؔہ کے لِئے۔ لیکن وہ جانتا نہ تھا کہ کیا کہتا ہے۔
34وہ یہ کہتا ہی تھا کہ بادل نے آ کر اُن پر سایہ کر لِیا اور جب وہ بادل میں گِھرنے لگے تو ڈر گئے۔ 35اور بادل میں سے ایک آواز آئی کہ یہ میرا برگُزِیدہ بیٹا ہے۔ اِس کی سُنو۔
36یہ آواز آتے ہی یِسُوعؔ اکیلا دکھائی دیا اور وہ چُپ رہے اور جو باتیں دیکھی تِھیں اُن دِنوں میں کِسی کو اُن کی کُچھ خبر نہ دی۔
یِسُوع ایک بدرُوح گِرفتہ لڑکے کو شِفا دیتا ہے
(متّی ۱۷‏:۱۴‏-۱۸؛ مرقس ۹‏:۱۴‏-۲۷)
37دُوسرے دِن جب وہ پہاڑ سے اُترے تھے تو اَیسا ہُؤا کہ ایک بڑی بِھیڑ اُس سے آ مِلی۔ 38اور دیکھو ایک آدمی نے بِھیڑ میں سے چِلاّ کر کہا اَے اُستاد! مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ میرے بیٹے پر نظر کر کیونکہ وہ میرا اِکلَوتا ہے۔ 39اور دیکھو ایک رُوح اُسے پکڑ لیتی ہے اور وہ یکایک چِیخ اُٹھتا ہے اور اُس کو اَیسا مروڑتی ہے کہ کف بھر لاتا ہے اور اُس کو کُچل کر مُشکِل سے چھوڑتی ہے۔ 40اور مَیں نے تیرے شاگِردوں کی مِنّت کی کہ اُسے نِکال دیں لیکن وہ نہ نِکال سکے۔
41یِسُوعؔ نے جواب میں کہا اَے بے اِعتقاد اور کَجرو قَوم میں کب تک تُمہارے ساتھ رہُوں گا اور تُمہاری برداشت کرُوں گا؟ اپنے بیٹے کو یہاں لے آ۔
42وہ آتا ہی تھا کہ بدرُوح نے اُسے پٹک کر مروڑا اور یِسُوعؔ نے اُس ناپاک رُوح کو جِھڑکا اور لڑکے کو اچھّا کر کے اُس کے باپ کو دے دِیا۔ 43اور سب لوگ خُدا کی شان کو دیکھ کر حَیران ہُوئے۔
یِسُوع دُوبارہ اپنے دُکھ اُٹھانے اور مَوت کا ذکر کرتا ہے
(متّی ۱۷‏:۲۲‏-۲۳؛ مرقس ۹‏:۳۰‏-۳۲)
لیکن جِس وقت سب لوگ اُن سب کاموں پر جو وہ کرتا تھا تعجُّب کر رہے تھے اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا۔
44تُمہارے کانوں میں یہ باتیں پڑی رہیں کیونکہ اِبنِ آدمؔ آدمِیوں کے ہاتھ میں حوالہ کِئے جانے کو ہے۔
45لیکن وہ اِس بات کو سمجھتے نہ تھے بلکہ یہ اُن سے چِھپائی گئی تاکہ اُسے معلُوم نہ کریں اور اِس بات کی بابت اُس سے پُوچھتے ہُوئے ڈرتے تھے۔
سب سے بڑا کون ہے؟
(متّی ۱۸‏:۱‏-۵؛ مرقس ۹‏:۳۳‏-۳۷)
46پِھر اُن میں یہ بحث شرُوع ہُوئی کہ ہم میں سے بڑا کَون ہے؟ 47لیکن یِسُوعؔ نے اُن کے دِلوں کا خیال معلُوم کر کے ایک بچّہ کو لِیا اور اپنے پاس کھڑا کر کے اُن سے کہا۔ 48جو کوئی اِس بچّہ کو میرے نام پر قبُول کرتا ہے وہ مُجھے قبُول کرتا ہے اور جو مُجھے قبُول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبُول کرتا ہے کیونکہ جو تُم میں سب سے چھوٹا ہے وُہی بڑا ہے۔
جو تُمہارا مُخالف نہیں وہ تُمہارا حامی ہے
(مرقس ۹‏:۳۸‏-۴۰)
49یُوحنّا نے جواب میں کہا اَے اُستاد ہم نے ایک شخص کو تیرے نام سے بدرُوحیں نِکالتے دیکھا اور اُس کو منع کرنے لگے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ تیری پَیروی نہیں کرتا۔
50لیکن یِسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ اُسے منع نہ کرنا کیونکہ جو تُمہارے خِلاف نہیں وہ تُمہاری طرف ہے۔
ایک سامری گاؤں یِسُوع کو قبُول کرنے سے اِنکار کرتا ہے
51جب وہ دِن نزدِیک آئے کہ وہ اُوپر اُٹھایا جائے تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے یروشلِیم جانے کو کمر باندھی۔ 52اور اپنے آگے قاصِد بھیجے۔ وہ جا کر سامرِیوں کے ایک گاؤں میں داخِل ہُوئے تاکہ اُس کے لِئے تیّاری کریں۔ 53لیکن اُنہوں نے اُس کو ٹِکنے نہ دِیا کیونکہ اُس کا رُخ یروشلِیم کی طرف تھا۔ 54یہ دیکھ کر اُس کے شاگِرد یعقُوبؔ اور یُوحنّا نے کہا اَے خُداوند کیا تُو چاہتا ہے کہ ہم حُکم دیں کہ آسمان سے آگ نازِل ہو کر اُنہیں بھسم کر دے [جَیسا ایلیّاؔہ نے کِیا]؟
55مگر اُس نے پِھر کر اُنہیں جِھڑکا [اور کہا تُم نہیں جانتے کہ تُم کَیسی رُوح کے ہو۔ 56کیونکہ اِبنِ آدمؔ لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا] پِھر وہ کِسی اَور گاؤں میں چلے گئے۔
یِسُوع کے پَیروکار بننے کے آرزُو مند افراد
(متّی ۸‏:۱۹‏-۲۳)
57جب وہ راہ میں چلے جاتے تھے تو کِسی نے اُس سے کہا جہاں کہِیں تُو جائے مَیں تیرے پِیچھے چلُوں گا۔
58یِسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ لومڑِیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرِندوں کے گھونسلے مگر اِبنِ آدمؔ کے لِئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔
59پِھر اُس نے دُوسرے سے کہا میرے پِیچھے چل۔
اُس نے کہا اَے خُداوند! مُجھے اِجازت دے کہ پہلے جا کر اپنے باپ کو دفن کرُوں۔
60اُس نے اُس سے کہا کہ مُردوں کو اپنے مُردے دفن کرنے دے لیکن تُو جا کر خُدا کی بادشاہی کی خبر پَھیلا۔
61ایک اَور نے بھی کہا اَے خُداوند مَیں تیرے پِیچھے چلُوں گا لیکن پہلے مُجھے اِجازت دے کہ اپنے گھر کے لوگوں سے رُخصت ہو آؤں۔
62یِسُوعؔ نے اُس سے کہا جو کوئی اپنا ہاتھ ہَل پر رکھ کر پِیچھے دیکھتا ہے وہ خُدا کی بادشاہی کے لائِق نہیں۔
یِسُوع ستّر شاگِردوں کو بھیجتا ہے
1اِن باتوں کے بعد خُداوند نے ستّر آدمی اَور مُقرّر کِئے اور جِس جِس شہر اور جگہ کو خُود جانے والا تھا وہاں اُنہیں دو دو کر کے اپنے آگے بھیجا۔ 2اور وہ اُن سے کہنے لگا کہ فصل تو بُہت ہے لیکن مزدُور تھوڑے ہیں اِس لِئے فصل کے مالِک کی مِنّت کرو کہ اپنی فصل کاٹنے کے لِئے مزدُور بھیجے۔ 3جاؤ۔ دیکھو مَیں تُم کو گویا برّوں کو بھیڑیوں کے بِیچ میں بھیجتا ہُوں۔ 4نہ بٹوا لے جاؤ نہ جھولی نہ جُوتِیاں اور نہ راہ میں کِسی کو سلام کرو۔ 5اور جِس گھر میں داخِل ہو پہلے کہو کہ اِس گھر کی سلامتی ہو۔ 6اگر وہاں کوئی سلامتی کا فرزند ہو گا تو تُمہارا سلام اُس پر ٹھہرے گا نہیں تو تُم پر لَوٹ آئے گا۔ 7اُسی گھر میں رہو اور جو کُچھ اُن سے مِلے کھاؤ پِیو کیونکہ مزدُور اپنی مزدُوری کا حق دار ہے۔ گھر گھر نہ پِھرو۔ 8اور جِس شہر میں داخِل ہو اور وہاں کے لوگ تُمہیں قبُول کریں تو جو کُچھ تُمہارے سامنے رکھّا جائے کھاؤ۔ 9اور وہاں کے بِیماروں کو اچھّا کرو اور اُن سے کہو کہ خُدا کی بادشاہی تُمہارے نزدِیک آ پہنچی ہے۔ 10لیکن جِس شہر میں داخِل ہو اور وہاں کے لوگ تُمہیں قبُول نہ کریں تو اُس کے بازاروں میں جا کر کہو کہ 11ہم اِس گَرد کو بھی جو تُمہارے شہر سے ہمارے پاؤں میں لگی ہے تُمہارے سامنے جھاڑے دیتے ہیں مگر یہ جان لو کہ خُدا کی بادشاہی نزدِیک آ پہنچی ہے۔ 12مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اُس دِن سدُوؔم کا حال اُس شہر کے حال سے زِیادہ برداشت کے لائِق ہو گا۔
اِیمان نہ لانے والے شہر
(متّی ۱۱‏:۲۰‏-۲۴)
13اَے خُرازِؔین تُجھ پر افسوس! اَے بَیت صَیدا تُجھ پر افسوس! کیونکہ جو مُعجِزے تُم میں ظاہِر ہُوئے اگر صُور اور صَیدا میں ظاہِر ہوتے تو وہ ٹاٹ اوڑھ کر اور خاک میں بَیٹھ کر کب کے تَوبہ کر لیتے۔ 14مگر عدالت میں صُور اور صَیدا کا حال تُمہارے حال سے زِیادہ برداشت کے لائِق ہو گا۔ 15اور اَے کَفرؔنحُوم کیا تُو آسمان تک بُلند کِیا جائے گا؟ نہیں بلکہ تُو عالمِ ارواح میں اُتارا جائے گا۔
16جو تُمہاری سُنتا ہے وہ میری سُنتا ہے اور جو تُمہیں نہیں مانتا وہ مُجھے نہیں مانتا اور جو مُجھے نہیں مانتا وہ میرے بھیجنے والے کو نہیں مانتا۔
ستّر شاگِردوں کی واپسی
17وہ سَتّر خُوش ہو کر پِھر آئے اور کہنے لگے اَے خُداوند تیرے نام سے بدرُوحیں بھی ہمارے تابِع ہیں۔
18اُس نے اُن سے کہا مَیں شَیطان کو بِجلی کی طرح آسمان سے گِرا ہُؤا دیکھ رہا تھا۔ 19دیکھو مَیں نے تُم کو اِختیار دِیا کہ سانپوں اور بِچّھُوؤں کو کُچلو اور دُشمن کی ساری قُدرت پر غالِب آؤ اور تُم کو ہرگِز کِسی چِیز سے ضرر نہ پہنچے گا۔ 20تَو بھی اِس سے خُوش نہ ہو کہ رُوحیں تُمہارے تابِع ہیں بلکہ اِس سے خُوش ہو کہ تُمہارے نام آسمان پر لِکھے ہُوئے ہیں۔
یِسُوع خُوش ہوتا ہے
(متّی ۱۱‏:۲۵‏-۲۷؛ ۱۳‏:۱۶‏-۱۷)
21اُسی گھڑی وہ رُوحُ القُدس سے خُوشی میں بھر گیا اور کہنے لگا اَے باپ آسمان اور زمِین کے خُداوند! مَیں تیری حمد کرتا ہُوں کہ تُو نے یہ باتیں داناؤں اور عقل مندوں سے چِھپائِیں اور بچّوں پر ظاہِر کِیں۔ ہاں اَے باپ کیونکہ اَیسا ہی تُجھے پسند آیا۔
22میرے باپ کی طرف سے سب کُچھ مُجھے سَونپا گیا اور کوئی نہیں جانتا کہ بیٹا کَون ہے سِوا باپ کے اور کوئی نہیں جانتا کہ باپ کَون ہے سِوا بیٹے کے اور اُس شخص کے جِس پر بیٹا اُسے ظاہِر کرنا چاہے۔
23اور شاگِردوں کی طرف مُتوجِّہ ہو کر خاص اُن ہی سے کہا مُبارک ہیں وہ آنکھیں جو یہ باتیں دیکھتی ہیں جِنہیں تُم دیکھتے ہو۔ 24کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ بُہت سے نبِیوں اور بادشاہوں نے چاہا کہ جو باتیں تُم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکِھیں اور جو باتیں تُم سُنتے ہو سُنیں مگر نہ سُنِیں۔
نیک سامری کی تمثِیل
25اور دیکھو ایک عالِمِ شرع اُٹھا اور یہ کہہ کر اُس کی آزمایش کرنے لگا کہ اَے اُستاد! مَیں کیا کرُوں کہ ہمیشہ کی زِندگی کا وارِث بنُوں؟
26اُس نے اُس سے کہا تَورَیت میں کیا لِکھا ہے؟ تُو کِس طرح پڑھتا ہے؟
27اُس نے جواب میں کہا کہ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے مُحبّت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر مُحبّت رکھ۔
28اُس نے اُس سے کہا تُو نے ٹِھیک جواب دِیا۔ یِہی کر تو تُو جِئے گا۔
29مگر اُس نے اپنے تئِیں راست باز ٹھہرانے کی غرض سے یِسُوعؔ سے پُوچھا پِھر میرا پڑوسی کَون ہے؟
30یِسُوعؔ نے جواب میں کہا کہ ایک آدمی یروشلِیم سے یریحُو کی طرف جا رہا تھا کہ ڈاکُوؤں میں گِھر گیا۔ اُنہوں نے اُس کے کپڑے اُتار لِئے اور مارا بھی اور ادھ مُؤا چھوڑ کر چلے گئے۔ 31اِتفاقاً ایک کاہِن اُسی راہ سے جا رہا تھا اور اُسے دیکھ کر کَترا کر چلا گیا۔ 32اِسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ 33لیکن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نِکلا اور اُسے دیکھ کر اُس نے ترس کھایا۔ 34اور اُس کے پاس آ کر اُس کے زخموں کو تیل اور مَے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر کے سرائے میں لے گیا اور اُس کی خبرگِیری کی۔ 35دُوسرے دِن دو دِینار نِکال کر بھٹیارے کو دِئے اور کہا اِس کی خبرگِیری کرنا اور جو کُچھ اِس سے زِیادہ خرچ ہو گا مَیں پِھر آ کر تُجھے ادا کر دُوں گا۔
36اِن تِینوں میں سے اُس شخص کا جو ڈاکُوؤں میں گِھر گیا تھا تیری دانِست میں کَون پڑوسی ٹھہرا؟
37اُس نے کہا وہ جِس نے اُس پر رحم کِیا۔
یِسُوعؔ نے اُس سے کہا جا تُو بھی اَیسا ہی کر۔
یِسُوع مرتھا اور مریمؔ سے مِلنے جاتا ہے
38پِھر جب جا رہے تھے تو وہ ایک گاؤں میں داخِل ہُؤا اور مرتھا نام ایک عَورت نے اُسے اپنے گھر میں اُتارا۔ 39اور مریمؔ نام اُس کی ایک بہن تھی۔ وہ یِسُوعؔ کے پاؤں کے پاس بَیٹھ کر اُس کا کلام سُن رہی تھی۔ 40لیکن مرؔتھا خِدمت کرتے کرتے گھبرا گئی۔ پس اُس کے پاس آ کر کہنے لگی اَے خُداوند! کیا تُجھے خیال نہیں کہ میری بہن نے خِدمت کرنے کو مُجھے اکیلا چھوڑ دِیا ہے؟ پس اُسے فرما کہ میری مدد کرے۔
41خُداوند نے جواب میں اُس سے کہا مرتھا! مرتھا! تُو تو بُہت سی چِیزوں کی فِکر و تردُّد میں ہے۔ 42لیکن ایک چِیز ضرُور ہے اور مریمؔ نے وہ اچّھا حِصّہ چُن لِیا ہے جو اُس سے چِھینا نہ جائے گا۔
دُعا کے بارے میں یِسُوع کی تعلِیم
(متّی ۶‏:۹‏-۱۳؛ ۷‏:۷‏-۱۱)
1پِھر اَیسا ہُؤا کہ وہ کِسی جگہ دُعا کر رہا تھا۔ جب کر چُکا تو اُس کے شاگِردوں میں سے ایک نے اُس سے کہا اَے خُداوند! جَیسا یُوحنّا نے اپنے شاگِردوں کو دُعا کرنا سِکھایا تُو بھی ہمیں سِکھا۔
2اُس نے اُن سے کہا جب تُم دُعا کرو تو کہو
اَے باپ!
تیرا نام پاک مانا جائے۔
تیری بادشاہی آئے۔
3ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دِیا کر۔
4اور ہمارے گُناہ مُعاف کر
کیونکہ ہم بھی اپنے ہر قرض دار کو مُعاف کرتے ہیں
اور ہمیں آزمایش میں نہ لا۔
5پِھر اُس نے اُن سے کہا تُم میں سے کون ہے جِس کا ایک دوست ہو اور وہ آدھی رات کو اُس کے پاس جا کر اُس سے کہے اَے دوست مُجھے تِین روٹِیاں دے۔ 6کیونکہ میرا ایک دوست سفر کر کے میرے پاس آیا ہے اور میرے پاس کُچھ نہیں کہ اُس کے آگے رکھُّوں۔ 7اور وہ اندر سے جواب میں کہے مُجھے تکلِیف نہ دے۔ اب دروازہ بند ہے اور میرے لڑکے میرے پاس بِچھونے پر ہیں۔ مَیں اُٹھ کر تُجھے دے نہیں سکتا۔ 8مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اگرچہ وہ اِس سبب سے کہ اُس کا دوست ہے اُٹھ کر اُسے نہ دے تَو بھی اُس کی بے حیائی کے سبب سے اُٹھ کر جِتنی درکار ہیں اُسے دے گا۔
9پس مَیں تُم سے کہتا ہُوں مانگو تو تُمہیں دِیا جائے گا۔ ڈُھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تُمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ 10کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے مِلتا ہے اور جو ڈُھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔ 11تُم میں سے اَیسا کَون سا باپ ہے کہ جب اُس کا بیٹا روٹی مانگے تو اُسے پتّھر دے؟ یا مچھلی مانگے تو مچھلی کے بدلے اُسے سانپ دے؟ 12یا انڈا مانگے تو اُس کو بِچُّھو دے؟ 13پس جب تُم بُرے ہو کر اپنے بچّوں کو اچّھی چِیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوحُ القُدس کیوں نہ دے گا؟
یِسُوع اور بَعل زبُول
(متّی ۱۲‏:۲۲‏-۳۰؛ مرقس ۳‏:۲۰‏-۲۷)
14پِھر وہ ایک گُونگی بدرُوح کو نِکال رہا تھا اور جب وہ بدرُوح نِکل گئی تو اَیسا ہُؤا کہ گُونگا بولا اور لوگوں نے تعجُّب کِیا۔ 15لیکن اُن میں سے بعض نے کہا یہ تو بدرُوحوں کے سردار بعل زبُول کی مدد سے بدرُوحوں کو نِکالتا ہے۔
16بعض اَور لوگ آزمایش کے لِئے اُس سے ایک آسمانی نِشان طلب کرنے لگے۔ 17مگر اُس نے اُن کے خیالات کو جان کر اُن سے کہا جِس سلطنت میں پُھوٹ پڑے وہ وِیران ہو جاتی ہے اور جِس گھر میں پُھوٹ پڑے وہ برباد ہو جاتا ہے۔ 18اور اگر شَیطان بھی اپنا مُخالِف ہو جائے تو اُس کی سلطنت کِس طرح قائِم رہے گی؟ کیونکہ تُم میری بابت کہتے ہو کہ یہ بدرُوحوں کو بعل زؔبُول کی مدد سے نِکالتا ہے۔ 19اور اگر مَیں بدرُوحوں کو بعل زؔبُول کی مدد سے نِکالتا ہُوں تو تُمہارے بیٹے کِس کی مدد سے نِکالتے ہیں؟ پس وُہی تُمہارے مُنصِف ہوں گے۔ 20لیکن اگر مَیں بدرُوحوں کو خُدا کی قُدرت سے نِکالتا ہُوں تو خُدا کی بادشاہی تُمہارے پاس آ پُہنچی۔
21جب زورآور آدمی ہتھیار باندھے ہُوئے اپنی حَویلی کی رکھوالی کرتا ہے تو اُس کا مال محفُوظ رہتا ہے۔ 22لیکن جب اُس سے کوئی زورآور حملہ کر کے اُس پر غالِب آتا ہے تو اُس کے سب ہتھیار جِن پر اُس کا بھروسا تھا چِھین لیتا اور اُس کا مال لُوٹ کر بانٹ دیتا ہے۔
23جو میری طرف نہیں وہ میرے خِلاف ہے اور جو میرے ساتھ جمع نہیں کرتا وہ بکھیرتا ہے۔
بدرُوح کی واپسی
(متّی ۱۲‏:۴۳‏-۴۵)
24جب ناپاک رُوح آدمی میں سے نِکلتی ہے تو سُوکھے مقاموں میں آرام ڈُھونڈتی پِھرتی ہے اور جب نہیں پاتی تو کہتی ہے کہ مَیں اپنے اُسی گھر میں لَوٹ جاؤں گی جِس سے نِکلی ہُوں۔ 25اور آ کر اُسے جھڑا ہُؤا اور آراستہ پاتی ہے۔ 26پِھر جا کر اَور سات رُوحیں اپنے سے بُری ہمراہ لے آتی ہے اور وہ اُس میں داخِل ہو کر وہاں بستی ہیں اور اُس آدمی کا پِچھلا حال پہلے سے بھی خراب ہو جاتا ہے۔
حقِیقی مُبارک حالی
27جب وہ یہ باتیں کہہ رہا تھا تو اَیسا ہُؤا کہ بِھیڑ میں سے ایک عَورت نے پُکار کر اُس سے کہا مُبارک ہے وہ رِحم جِس میں تُو رہا اور وہ چھاتِیاں جو تُو نے چُوسِیں۔
28اُس نے کہا ہاں۔ مگر زِیادہ مُبارک وہ ہیں جو خُدا کا کلام سُنتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔
کِسی نِشان کا مطالبہ
(متّی ۱۲‏:۳۸‏-۴۲)
29جب بڑی بِھیڑ جمع ہوتی جاتی تھی تو وہ کہنے لگا کہ اِس زمانہ کے لوگ بُرے ہیں۔ وہ نِشان طلب کرتے ہیں مگر یُوناہ کے نِشان کے سِوا کوئی اَور نِشان اُن کو نہ دِیا جائے گا۔ 30کیونکہ جِس طرح یُوناہ نَینِوؔہ کے لوگوں کے لِئے نِشان ٹھہرا اُسی طرح اِبنِ آدمؔ بھی اِس زمانہ کے لوگوں کے لِئے ٹھہرے گا۔ 31دَکھّن کی مَلِکہ اِس زمانہ کے آدمِیوں کے ساتھ عدالت کے دِن اُٹھ کر اِن کو مُجرِم ٹھہرائے گی کیونکہ وہ دُنیا کے کِنارے سے سُلیماؔن کی حِکمت سُننے کو آئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سُلیماؔن سے بھی بڑا ہے۔ 32نَینِوؔہ کے لوگ اِس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ عدالت کے دِن کھڑے ہو کر اِن کو مُجرِم ٹھہرائیں گے کیونکہ اُنہوں نے یُوناہ کی مُنادی پر تَوبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یُوناہ سے بھی بڑا ہے۔
بدن کا چراغ
(متّی ۵‏:۱۵؛ ۶‏:۲۲‏-۲۳)
33کوئی شخص چراغ جلا کر تَہ خانہ میں یا پَیمانہ کے نِیچے نہیں رکھتا بلکہ چراغ دان پر رکھتا ہے تاکہ اندر آنے والوں کو رَوشنی دِکھائی دے۔ 34تیرے بدن کا چراغ تیری آنکھ ہے۔ جب تیری آنکھ درُست ہے تو تیرا سارا بدن بھی رَوشن ہے اور جب خراب ہے تو تیرا بدن بھی تارِیک ہے۔ 35پس دیکھ جو رَوشنی تُجھ میں ہے تارِیکی تو نہیں۔ 36پس اگر تیرا سارا بدن رَوشن ہو اور کوئی حِصّہ تارِیک نہ رہے تو وہ تمام اَیسا رَوشن ہو گا جَیسا اُس وقت ہوتا ہے جب چراغ اپنی چمک سے تُجھے رَوشن کرتا ہے۔
یِسُوع فقہیوں اور فریسیوں کو اِلزام دیتا ہے
(متّی ۲۳‏:۱‏-۳۶؛ مرقس ۱۲‏:۳۸‏-۴۰)
37جب وہ بات کر رہا تھا تو کِسی فریسی نے اُس کی دَعوت کی۔ پس وہ اندر جا کر کھانا کھانے بَیٹھا۔ 38فریسی نے یہ دیکھ کر تعجُّب کِیا کہ اُس نے کھانے سے پہلے غُسل نہیں کِیا۔ 39خُداوند نے اُس سے کہا اَے فریسیو! تُم پیالے اور رکابی کو اُوپر سے تو صاف کرتے ہو لیکن تُمہارے اندر لُوٹ اور بَدی بھری ہے۔ 40اَے نادانو! جِس نے باہر کو بنایا کیا اُس نے اندر کو نہیں بنایا؟ 41ہاں اندر کی چِیزیں خَیرات کر دو تو دیکھو سب کُچھ تُمہارے لِئے پاک ہو گا۔
42لیکن اَے فریسیو تُم پر افسوس! کہ پودِینے اور سُداب اور ہر ایک ترکاری پر دَہ یکی دیتے ہو اور اِنصاف اور خُدا کی مُحبّت سے غافِل رہتے ہو۔ لازِم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔
43اَے فریسیو تُم پر افسوس! کہ تُم عِبادت خانوں میں اعلےٰ درجہ کی کُرسِیاں اور بازاروں میں سلام چاہتے ہو۔ 44تُم پر افسوس! کیونکہ تُم اُن پوشِیدہ قبروں کی مانِند ہو جِن پر آدمی چلتے ہیں اور اُن کو اِس بات کی خبر نہیں۔
45پِھر شرع کے عالِموں میں سے ایک نے جواب میں اُس سے کہا اَے اُستاد! اِن باتوں کے کہنے سے تُو ہمیں بھی بے عِزّت کرتا ہے۔
46اُس نے کہا اَے شرع کے عالِمو تُم پر بھی افسوس! کہ تُم اَیسے بوجھ جِن کو اُٹھانا مُشکِل ہے آدمِیوں پر لادتے ہو اور آپ ایک اُنگلی بھی اُن بوجھوں کو نہیں لگاتے۔ 47تُم پر افسوس! کہ تُم تو نبِیوں کی قبروں کو بناتے ہو اور تُمہارے باپ دادا نے اُن کو قتل کِیا تھا۔ 48پس تُم گواہ ہو اور اپنے باپ دادا کے کاموں کو پسند کرتے ہو کیونکہ اُنہوں نے تو اُن کو قتل کِیا تھا اور تُم اُن کی قبریں بناتے ہو۔ 49اِسی لِئے خُدا کی حِکمت نے کہا ہے کہ مَیں نبِیوں اور رسُولوں کو اُن کے پاس بھیجوں گی۔ وہ اُن میں سے بعض کو قتل کریں گے اور بعض کو ستائیں گے۔ 50تاکہ سب نبِیوں کے خُون کی جو بنایِ عالَم سے بہایا گیا اِس زمانہ کے لوگوں سے بازپُرس کی جائے۔ 51ہابِل کے خُون سے لے کر اُس زکرؔیاہ کے خُون تک جو قُربان گاہ اور مَقدِس کے بِیچ میں ہلاک ہُؤا۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اِسی زمانہ کے لوگوں سے سب کی بازپُرس کی جائے گی۔
52اَے شرع کے عالِمو تُم پر افسوس! کہ تُم نے معرفت کی کُنجی چِھین لی۔ تُم آپ بھی داخِل نہ ہُوئے اور داخِل ہونے والوں کو بھی روکا۔
53جب وہ وہاں سے نِکلا تو فقِیہہ اور فریسی اُسے بے طرح چِمٹنے اور چھیڑنے لگے تاکہ وہ بُہت سی باتوں کا ذِکر کرے۔ 54اور اُس کی گھات میں رہے تاکہ اُس کے مُنہ کی کوئی بات پکڑیں۔
رِیاکاری کے خِلاف تنبیہ
(متّی ۱۰‏:۲۶‏-۲۷)
1اِتنے میں جب ہزاروں آدمِیوں کی بِھیڑ لگ گئی یہاں تک کہ ایک دُوسرے پر گِرا پڑتا تھا تو اُس نے سب سے پہلے اپنے شاگِردوں سے یہ کہنا شرُوع کِیا کہ اُس خمِیر سے ہوشیار رہنا جو فریسیوں کی رِیاکاری ہے۔ 2کیونکہ کوئی چِیز ڈھکی نہیں جو کھولی نہ جائے گی اور نہ کوئی چِیز چھُپی ہے جو جانی نہ جائے گی۔ 3اِس لِئے جو کُچھ تُم نے اندھیرے میں کہا ہے وہ اُجالے میں سُنا جائے گا اور جو کُچھ تُم نے کوٹھرِیوں کے اندر کان میں کہا ہے کوٹھوں پر اُس کی مُنادی کی جائے گی۔
کِن سے ڈرنا چاہئے
(متّی ۱۰‏:۲۸‏-۳۱)
4مگر تُم دوستوں سے مَیں کہتا ہُوں کہ اُن سے نہ ڈرو جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور اُس کے بعد اَور کُچھ نہیں کر سکتے۔ 5لیکن مَیں تُمہیں جتاتا ہُوں کہ کِس سے ڈرنا چاہئے۔ اُس سے ڈرو جِس کو اِختیار ہے کہ قتل کرنے کے بعد جہنّم میں ڈالے۔ ہاں مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اُسی سے ڈرو۔
6کیا دو پَیسے کی پانچ چِڑیاں نہیں بِکتِیں؟ تَو بھی خُدا کے حضُور اُن میں سے ایک بھی فراموش نہیں ہوتی۔ 7بلکہ تُمہارے سر کے سب بال بھی گِنے ہُوئے ہیں۔ ڈرو مت۔ تُمہاری قدر تو بُہت سی چِڑیوں سے زِیادہ ہے۔
مسِیح کا اِقرار اور اِنکار کرنا
(متّی ۱۰‏:۱۹‏-۲۰، ۳۲‏-۳۳؛ ۱۲‏:۳۲)
8اور مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جو کوئی آدمِیوں کے سامنے میرا اِقرار کرے اِبنِ آدمؔ بھی خُدا کے فرِشتوں کے سامنے اُس کا اِقرار کرے گا۔ 9مگر جو آدمِیوں کے سامنے میرا اِنکار کرے خُدا کے فرِشتوں کے سامنے اُس کا اِنکار کِیا جائے گا۔
10اَور جو کوئی اِبنِ آدمؔ کے خِلاف کوئی بات کہے اُس کو مُعاف کِیا جائے گا لیکن جو رُوحُ القُدس کے حق میں کُفر بَکے اُس کو مُعاف نہ کِیا جائے گا۔
11اور جب وہ تُم کو عِبادت خانوں میں اور حاکِموں اور اِختیار والوں کے پاس لے جائیں تو فِکر نہ کرنا کہ ہم کِس طرح یا کیا جواب دیں یا کیا کہیں۔ 12کیونکہ رُوحُ القُدس اُسی گھڑی تُمہیں سِکھا دے گا کہ کیا کہنا چاہئے۔
دَولت مند بیوقُوف کی تمثِیل
13پِھر بِھیڑ میں سے ایک نے اُس سے کہا اَے اُستاد! میرے بھائی سے کہہ کہ مِیراث کا میرا حِصّہ مُجھے دے۔
14اُس نے اُس سے کہا۔ مِیاں! کِس نے مُجھے تُمہارا مُنصِف یا بانٹنے والا مُقرّر کِیا ہے؟ 15اور اُس نے اُن سے کہا خبردار! اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھّو کیونکہ کِسی کی زِندگی اُس کے مال کی کثرت پر مَوقُوف نہیں۔
16اور اُس نے اُن سے ایک تمثِیل کہی کہ کِسی دَولت مند کی زمِین میں بڑی فصل ہُوئی۔ 17پس وہ اپنے دِل میں سوچ کر کہنے لگا کہ مَیں کیا کرُوں کیونکہ میرے ہاں جگہ نہیں جہاں اپنی پَیداوار بھر رکھّوں؟ 18اُس نے کہا مَیں یُوں کرُوں گا کہ اپنی کوٹِھیاں ڈھا کر اُن سے بڑی بناوُں گا۔ 19اور اُن میں اپنا سارا اناج اور مال بھر رکھّوں گا اور اپنی جان سے کہُوں گا اَے جان! تیرے پاس بُہت برسوں کے لِئے بُہت سا مال جمع ہے۔ چَین کر۔ کھا پی۔ خُوش رہ۔ 20مگر خُدا نے اُس سے کہا اَے نادان! اِسی رات تیری جان تُجھ سے طلب کر لی جائے گی۔ پس جو کُچھ تُو نے تیّار کِیا ہے وہ کِس کا ہو گا؟
21اَیسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لِئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خُدا کے نزدِیک دَولت مند نہیں۔
خُدا پر بھروسا
(متّی ۶‏:۲۵‏-۳۴)
22پِھر اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا اِس لِئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اپنی جان کی فِکر نہ کرو کہ ہم کیا کھائیں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔ 23کیونکہ جان خُوراک سے بڑھ کر ہے اور بدن پوشاک سے۔ 24کووّں پر غَور کرو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ اُن کے کھتّا ہوتا ہے نہ کوٹھی۔ تَو بھی خُدا اُنہیں کِھلاتا ہے۔ تُمہاری قدر تو پرِندوں سے کہِیں زِیادہ ہے۔ 25تُم میں اَیسا کَون ہے جو فِکر کر کے اپنی عُمر میں ایک گھڑی بڑھا سکے؟ 26پس جب سب سے چھوٹی بات بھی نہیں کر سکتے تو باقی چِیزوں کی فِکر کیوں کرتے ہو؟ 27سوسن کے درختوں پر غَور کرو کہ کِس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ مِحنت کرتے نہ کاتتے ہیں تَو بھی مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ سُلیماؔن بھی باوجُود اپنی ساری شان و شوکت کے اُن میں سے کِسی کی مانِند مُلبّس نہ تھا۔ 28پس جب خُدا مَیدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنُور میں جَھونکی جائے گی اَیسی پوشاک پہناتا ہے تو اَے کم اِعتقادو تُم کو کیوں نہ پہنائے گا؟
29اور تُم اِس کی تلاش میں نہ رہو کہ کیا کھائیں گے اور کیا پِئیں گے اور نہ شکّی بنو۔ 30کیونکہ اِن سب چِیزوں کی تلاش میں دُنیا کی قَومیں رہتی ہیں لیکن تُمہارا باپ جانتا ہے کہ تُم اِن چِیزوں کے مُحتاج ہو۔ 31ہاں اُس کی بادشاہی کی تلاش میں رہو تو یہ چِیزیں بھی تُمہیں مِل جائیں گی۔
آسمان پر خزانہ
(متّی ۶‏:۱۹‏-۲۱)
32اَے چھوٹے گلّے نہ ڈر کیونکہ تُمہارے باپ کو پسند آیا کہ تُمہیں بادشاہی دے۔ 33اپنا مال اسباب بیچ کر خَیرات کر دو اور اپنے لِئے اَیسے بٹوے بناؤ جو پُرانے نہیں ہوتے یعنی آسمان پر اَیسا خزانہ جو خالی نہیں ہوتا۔ جہاں چور نزدِیک نہیں جاتا اور کِیڑا خراب نہیں کرتا۔ 34کیونکہ جہاں تُمہارا خزانہ ہے وہِیں تُمہارا دِل بھی لگا رہے گا۔
چَوکس نَوکر
35تُمہاری کمریں بندھی رہیں اور تُمہارے چراغ جلتے رہیں۔ 36اور تُم اُن آدمِیوں کی مانِند بنو جو اپنے مالِک کی راہ دیکھتے ہوں کہ وہ شادی میں سے کب لَوٹے گا تاکہ جب وہ آ کر دروازہ کھٹکھٹائے تو فوراً اُس کے واسطے کھول دیں۔ 37مُبارک ہیں وہ نَوکر جِن کا مالِک آ کر اُنہیں جاگتا پائے۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ کمر باندھ کر اُنہیں کھانا کھانے کو بِٹھائے گا اور پاس آ کر اُن کی خِدمت کرے گا۔ 38اور اگر وہ رات کے دُوسرے پہر میں یا تِیسرے پہر میں آ کر اُن کو اَیسے حال میں پائے تو وہ نَوکر مُبارک ہیں۔ 39لیکن یہ جان رکھّو کہ اگر گھر کے مالِک کو معلُوم ہوتا کہ چور کِس گھڑی آئے گا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب لگنے نہ دیتا۔ 40تُم بھی تیّار رہو کیونکہ جِس گھڑی تُمہیں گُمان بھی نہ ہو گا اِبنِ آدمؔ آ جائے گا۔
دِیانت دار یا بددِیانت نوکر
(متّی ۲۴‏:۴۵‏-۵۱)
41پطرؔس نے کہا اَے خُداوند تُو یہ تمثِیل ہم ہی سے کہتا ہے یا سب سے؟
42خُداوند نے کہا کَون ہے وہ دِیانت دار اور عقل مند داروغہ جِس کا مالِک اُسے اپنے نَوکر چاکروں پر مُقرّر کرے کہ ہر ایک کی خُوراک وقت پر بانٹ دِیا کرے؟ 43مُبارک ہے وہ نَوکر جِس کا مالِک آ کر اُس کو اَیسا ہی کرتے پائے۔ 44مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ اُسے اپنے سارے مال پر مُختار کر دے گا۔ 45لیکن اگر وہ نَوکر اپنے دِل میں یہ کہہ کر کہ میرے مالِک کے آنے میں دیر ہے غُلاموں اور لَونڈیوں کو مارنا اور کھا پی کر متوالا ہونا شرُوع کرے۔ 46تو اُس نَوکر کا مالِک اَیسے دِن کہ وہ اُس کی راہ نہ دیکھتا ہو اور اَیسی گھڑی کہ وہ نہ جانتا ہو آ مَوجُود ہو گا اور خُوب کوڑے لگا کر اُسے بے اِیمانوں میں شامِل کرے گا۔
47اور وہ نَوکر جِس نے اپنے مالِک کی مرضی جان لی اور تیّاری نہ کی نہ اُس کی مرضی کے مُوافِق عمل کِیا بُہت مار کھائے گا۔ 48مگر جِس نے نہ جان کر مار کھانے کے کام کِئے وہ تھوڑی مار کھائے گا اور جِسے بُہت دِیا گیا اُس سے بُہت طلب کِیا جائے گا اور جِسے بُہت سَونپا گیا ہے اُس سے زِیادہ طلب کریں گے۔
یِسُوع تفرقہ کا سبب
(متّی ۱۰‏:۳۴‏-۳۶)
49مَیں زمِین پر آگ بھڑکانے آیا ہُوں اور اگر لگ چُکی ہوتی تو مَیں کیا ہی خُوش ہوتا! 50لیکن مُجھے ایک بپتِسمہ لینا ہے اور جب تک وہ نہ ہو لے مَیں بُہت ہی تنگ رہُوں گا! 51کیا تُم گُمان کرتے ہو کہ مَیں زمِین پر صُلح کرانے آیا ہُوں؟ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ نہیں بلکہ جُدائی کرانے۔ 52کیونکہ اب سے ایک گھر کے پانچ آدمی آپس میں مُخالفت رکھّیں گے۔ دو سے تِین اور تِین سے دو۔ 53باپ بیٹے سے مُخالفت رکھّے گا اور بیٹا باپ سے۔ ماں بیٹی سے اور بیٹی ماں سے۔ ساس بہُو سے اور بہُو ساس سے۔
زمانہ کو پہچاننا
(متّی ۱۶‏:۲‏-۳)
54پِھر اُس نے لوگوں سے بھی کہا کہ جب بادِل کو پچّھم سے اُٹھتے دیکھتے ہو تو فوراً کہتے ہو کہ مِینہ برسے گا اور اَیسا ہی ہوتا ہے۔ 55اور جب تُم معلُوم کرتے ہو کہ دَکھّنا چل رہی ہے تو کہتے ہو کہ لُو چلے گی اور اَیسا ہی ہوتا ہے۔ 56اَے رِیاکارو زمِین اور آسمان کی صُورت میں تو اِمتِیاز کرنا تُمہیں آتا ہے لیکن اِس زمانہ کی بابت اِمتِیاز کرنا کیوں نہیں آتا؟
مُدّعی کے ساتھ مفاہمت
(متّی ۵‏:۲۵‏-۲۶)
57اور تُم اپنے آپ ہی کیوں فَیصلہ نہیں کر لیتے کہ واجِب کیا ہے؟ 58جب تُو اپنے مُدّعی کے ساتھ حاکِم کے پاس جا رہا ہے تو راہ میں کوشِش کر کہ اُس سے چُھوٹ جائے۔ اَیسا نہ ہو کہ وہ تُجھ کو مُنصِف کے پاس کھینچ لے جائے اور مُنصِف تُجھ کو سِپاہی کے حوالہ کرے اور سِپاہی تُجھے قَید میں ڈالے۔ 59مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ جب تک تُو دمڑی دمڑی ادا نہ کر دے گا وہاں سے ہرگِز نہ چُھوٹے گا۔
اپنے گُناہ ترک کرو یا مَرو
1اُس وقت بعض لوگ حاضِر تھے جِنہوں نے اُسے اُن گلِیلِیوں کی خبر دی جِن کا خُون پِیلاطُسؔ نے اُن کے ذبِیحوں کے ساتھ مِلایا تھا۔ 2اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ اِن گلِیلِیوں نے جو اَیسا دُکھ پایا کیا وہ اِس لِئے تُمہاری دانِست میں اَور سب گلِیلِیوں سے زِیادہ گُنہگار تھے؟ 3مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ نہیں بلکہ اگر تُم تَوبہ نہ کرو گے تو سب اِسی طرح ہلاک ہو گے۔ 4یا کیا وہ اٹھارہ آدمی جِن پر شیلوؔخ کا بُرج گِرا اور دب کر مَر گئے تُمہاری دانِست میں یروشلِیم کے اَور سب رہنے والوں سے زِیادہ قصُوروار تھے؟ 5مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ نہیں بلکہ اگر تُم تَوبہ نہ کرو گے تو سب اِسی طرح ہلاک ہو گے۔
انجِیر کے بے پَھل درخت کی تمثِیل
6پِھر اُس نے یہ تمثِیل کہی کہ کِسی نے اپنے تاکِستان میں ایک انجِیر کا درخت لگایا تھا۔ وہ اُس میں پَھل ڈُھونڈنے آیا اور نہ پایا۔ 7اِس پر اُس نے باغبان سے کہا کہ دیکھ تِین برس سے مَیں اِس انجِیر کے درخت میں پَھل ڈُھونڈنے آتا ہُوں اور نہیں پاتا۔ اِسے کاٹ ڈال۔ یہ زمِین کو بھی کیوں روکے رہے؟ 8اُس نے جواب میں اُس سے کہا اَے خُداوند اِس سال تو اَور بھی اُسے رہنے دے تاکہ مَیں اُس کے گِرد تھالا کھودُوں اور کھاد ڈالُوں۔ 9اگر آگے کو پَھلا تو خَیر نہیں تو اُس کے بعد کاٹ ڈالنا۔
یِسُوع سبت کے دِن ایک مفلُوج عَورت کو شِفا دیتا ہے
10پِھر وہ سبت کے دِن کِسی عِبادت خانہ میں تعلِیم دیتا تھا۔ 11اور دیکھو ایک عَورت تھی جِس کو اٹھارہ برس سے کِسی بدرُوح کے باعِث کمزوری تھی۔ وہ کُبڑی ہو گئی تھی اور کِسی طرح سِیدھی نہ ہو سکتی تھی۔ 12یِسُوعؔ نے اُسے دیکھ کر پاس بُلایا اور اُس سے کہا اَے عَورت تُو اپنی کمزوری سے چُھوٹ گئی۔ 13اور اُس نے اُس پر ہاتھ رکھّے۔ اُسی دَم وہ سِیدھی ہو گئی اور خُدا کی تمجِید کرنے لگی۔
14عِبادت خانہ کا سردار اِس لِئے کہ یِسُوعؔ نے سبت کے دِن شِفا بخشی خَفا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا چھ دِن ہیں جِن میں کام کرنا چاہیے پس اُن ہی میں آ کر شِفا پاؤ نہ کہ سبت کے دِن۔
15خُداوند نے اُس کے جواب میں کہا کہ اَے رِیاکارو! کیا ہر ایک تُم میں سے سبت کے دِن اپنے بَیل یا گدھے کو تھان سے کھول کر پانی پِلانے نہیں لے جاتا؟ 16پس کیا واجِب نہ تھا کہ یہ جو ابرہامؔ کی بیٹی ہے جِس کو شَیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھّا تھا سبت کے دِن اِس بند سے چُھڑائی جاتی؟ 17جب اُس نے یہ باتیں کہِیں تو اُس کے سب مُخالِف شرمِندہ ہُوئے اور ساری بِھیڑ اُن عالِیشان کاموں سے جو اُس سے ہوتے تھے خُوش ہُوئی۔
رائی کے دانے (بیج) کی تمثِیل
(متّی ۱۳‏:۳۱‏-۳۲؛ مرقس ۴‏:۳۰‏-۳۲)
18پس وہ کہنے لگا خُدا کی بادشاہی کِس کی مانِند ہے؟ مَیں اُس کو کِس سے تشبِیہ دُوں؟ 19وہ رائی کے دانے کی مانِند ہے جِس کو ایک آدمی نے لے کر اپنے باغ میں ڈال دِیا۔ وہ اُگ کر بڑا درخت ہو گیا اور ہوا کے پرِندوں نے اُس کی ڈالیوں پر بسیرا کِیا۔
خمِیر کی تمثِیل
(متّی ۱۳‏:۳۳)
20اُس نے پِھر کہا مَیں خُدا کی بادشاہی کو کِس سے تشبِیہ دُوں؟ 21وہ خمِیر کی مانِند ہے جِسے ایک عَورت نے لے کر تِین پَیمانہ آٹے میں مِلایا اور ہوتے ہوتے سب خمِیر ہو گیا۔
تنگ دروازہ
(متّی ۷‏:۱۳‏-۱۴، ۲۱‏-۲۳)
22وہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں تعلِیم دیتا ہُؤا یروشلِیم کا سفر کر رہا تھا۔ 23اور کِسی شخص نے اُس سے پُوچھا کہ اَے خُداوند! کیا نجات پانے والے تھوڑے ہیں؟
24اُس نے اُن سے کہا جانفشانی کرو کہ تنگ دروازہ سے داخِل ہو کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ بُہتیرے داخِل ہونے کی کوشِش کریں گے اور نہ ہو سکیں گے۔ 25جب گھر کا مالِک اُٹھ کر دروازہ بند کر چُکا ہو اور تُم باہر کھڑے دروازہ کھٹکھٹا کر یہ کہنا شرُوع کرو کہ اَے خُداوند! ہمارے لِئے کھول دے اور وہ جواب دے کہ مَیں تُم کو نہیں جانتا کہ کہاں کے ہو۔ 26اُس وقت تُم کہنا شرُوع کرو گے کہ ہم نے تو تیرے رُوبرُو کھایا پِیا اور تُو نے ہمارے بازاروں میں تعلِیم دی۔ 27مگر وہ کہے گا مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ مَیں نہیں جانتا تُم کہاں کے ہو۔ اَے بدکارو! تُم سب مُجھ سے دُور ہو۔ 28وہاں رونا اور دانت پِیسنا ہو گا جب تُم ابرہامؔ اور اِضحاقؔ اور یعقُوبؔ اور سب نبِیوں کو خُدا کی بادشاہی میں شامِل اور اپنے آپ کو باہر نِکالا ہُؤا دیکھو گے۔ 29اور پُورب پچّھم اُتّر دکھّن سے لوگ آ کر خُدا کی بادشاہی کی ضِیافت میں شرِیک ہوں گے۔ 30اور دیکھو بعض آخِر اَیسے ہیں جو اوّل ہوں گے اور بعض اوّل ہیں جو آخِر ہوں گے۔
یروشلِیم کے لِئے یِسُوع کی مُحبّت
(متّی ۲۳‏:۳۷‏-۳۹)
31اُسی گھڑی بعض فریسیوں نے آ کر اُس سے کہا کہ نِکل کر یہاں سے چل دے کیونکہ ہیرودؔیس تُجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔
32اُس نے اُن سے کہا کہ جا کر اُس لومڑی سے کہہ دو کہ دیکھ مَیں آج اور کل بدرُوحوں کو نِکالتا اور شِفا بخشنے کا کام انجام دیتا رہُوں گا اور تِیسرے دِن کمال کو پہنچُوں گا۔ 33مگر مُجھے آج اور کل اور پرسوں اپنی راہ پر چلنا ضرُور ہے کیونکہ مُمکِن نہیں کہ نبی یروشلِیم سے باہر ہلاک ہو۔
34اَے یروشلِیم! اَے یروشلِیم! تُو جو نبِیوں کو قتل کرتی ہے اور جو تیرے پاس بھیجے گئے اُن کو سنگسار کرتی ہے کِتنی ہی بار مَیں نے چاہا کہ جِس طرح مُرغی اپنے بچّوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اُسی طرح مَیں بھی تیرے بچّوں کو جمع کر لُوں مگر تُم نے نہ چاہا! 35دیکھو تُمہارا گھر تُمہارے ہی لِئے چھوڑا جاتا ہے اور مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ مُجھ کو اُس وقت تک ہرگِز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مُبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام سے آتا ہے۔
یِسُوع ایک بیمار آدمی کو شِفا دیتا ہے
1پِھر اَیسا ہُؤا کہ وہ سبت کے دِن فریسیوں کے سرداروں میں سے کِسی کے گھر کھانا کھانے کو گیا اور وہ اُس کی تاک میں رہے۔ 2اور دیکھو ایک شخص اُس کے سامنے تھا جِسے جلندر تھا۔ 3یِسُوعؔ نے شرع کے عالِموں اور فریسیوں سے کہا کہ سَبت کے دِن شِفا بخشنا رَوا ہے یا نہیں؟
4وہ چُپ رہ گئے۔ اُس نے اُسے ہاتھ لگا کر شِفا بخشی اور رُخصت کِیا۔ 5اور اُن سے کہا تُم میں اَیسا کَون ہے جِس کا گدھا یا بَیل کنُوئیں میں گِر پڑے اور وہ سبت کے دِن اُس کو فوراً نہ نِکال لے؟
6وہ اِن باتوں کا جواب نہ دے سکے۔
فروتنی اور مہمان نوازی
7جب اُس نے دیکھا کہ مِہمان صدر جگہ کِس طرح پسند کرتے ہیں تو اُن سے ایک تمثِیل کہی کہ 8جب کوئی تُجھے شادی میں بُلائے تو صدر جگہ پر نہ بَیٹھ کہ شاید اُس نے کِسی تُجھ سے بھی زِیادہ عِزّت دار کو بُلایا ہو۔ 9اور جِس نے تُجھے اور اُسے دونوں کو بُلایا ہے آ کر تُجھ سے کہے کہ اِس کو جگہ دے۔ پِھر تُجھے شرمِندہ ہو کر سب سے نِیچے بَیٹھنا پڑے۔ 10بلکہ جب تُو بُلایا جائے تو سب سے نِیچی جگہ جا بَیٹھ تاکہ جب تیرا بُلانے والا آئے تو تُجھ سے کہے اَے دوست آگے بڑھ کر بَیٹھ! تب اُن سب کی نظر میں جو تیرے ساتھ کھانا کھانے بَیٹھے ہیں تیری عِزّت ہو گی۔ 11کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کِیا جائے گا۔
12پِھر اُس نے اپنے بُلانے والے سے بھی یہ کہا کہ جب تُو دِن کا یا رات کا کھانا تیّار کرے تو اپنے دوستوں یا بھائِیوں یا رِشتہ داروں یا دَولت مند پڑوسِیوں کو نہ بُلا تاکہ اَیسا نہ ہو کہ وہ بھی تُجھے بُلائیں اور تیرا بدلہ ہو جائے۔ 13بلکہ جب تُو ضِیافت کرے تو غرِیبوں لُنجوں لنگڑوں اندھوں کو بُلا۔ 14اور تُجھ پر برکت ہو گی کیونکہ اُن کے پاس تُجھے بدلہ دینے کو کُچھ نہیں اور تُجھے راست بازوں کی قِیامت میں بدلہ مِلے گا۔
بڑی ضِیافت کی تمثِیل
(متّی ۲۲‏:۱‏-۱۰)
15جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بَیٹھے تھے اُن میں سے ایک نے یہ باتیں سُن کر اُس سے کہا مُبارک ہے وہ جو خُدا کی بادشاہی میں کھانا کھائے۔
16اُس نے اُس سے کہا ایک شخص نے بڑی ضِیافت کی اور بُہت سے لوگوں کو بُلایا۔ 17اور کھانے کے وقت اپنے نَوکر کو بھیجا کہ بُلائے ہُوؤں سے کہے آؤ۔ اب کھانا تیّار ہے۔ 18اِس پر سب نے مِل کر عُذر کرنا شرُوع کِیا۔ پہلے نے اُس سے کہا مَیں نے کھیت خرِیدا ہے مُجھے ضرُور ہے کہ جا کر اُسے دیکُھوں۔ مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں مُجھے معذُور رکھ۔ 19دُوسرے نے کہا مَیں نے پانچ جوڑی بَیل خرِیدے ہیں اور اُنہیں آزمانے جاتا ہُوں۔ مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں مُجھے معذُور رکھ۔ 20ایک اَور نے کہا مَیں نے بیاہ کِیا ہے۔ اِس سبب سے نہیں آ سکتا۔
21پس اُس نَوکر نے آ کر اپنے مالِک کو اِن باتوں کی خبر دی۔ اِس پر گھر کے مالِک نے غُصّے ہو کر اپنے نَوکر سے کہا جلد شہر کے بازاروں اور کُوچوں میں جا کر غرِیبوں لُنجوں اندھوں اور لنگڑوں کو یہاں لے آ۔ 22نَوکر نے کہا اَے خُداوند! جَیسا تُو نے فرمایا تھا وَیسا ہی ہُؤا اور اب بھی جگہ ہے۔ 23مالِک نے اُس نَوکر سے کہا کہ سڑکوں اور کھیت کی باڑوں کی طرف جا اور لوگوں کو مجبُور کر کے لا تاکہ میرا گھر بھر جائے۔ 24کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جو بُلائے گئے تھے اُن میں سے کوئی شخص میرا کھانا چکھنے نہ پائے گا۔
شاگِردیت کی قِیمت
(متّی ۱۰‏:۳۷‏-۳۸)
25جب بُہت سے لوگ اُس کے ساتھ جا رہے تھے تو اُس نے پِھر کر اُن سے کہا۔ 26اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بِیوی اور بچّوں اور بھائِیوں اور بہنوں بلکہ اپنی جان سے بھی دُشمنی نہ کرے تو میرا شاگِرد نہیں ہو سکتا۔ 27جو کوئی اپنی صلِیب اُٹھا کر میرے پِیچھے نہ آئے وہ میرا شاگِرد نہیں ہو سکتا۔
28کیونکہ تُم میں اَیسا کَون ہے کہ جب وہ ایک بُرج بنانا چاہے تو پہلے بَیٹھ کر لاگت کا حِساب نہ کر لے کہ آیا میرے پاس اُس کے تیّار کرنے کا سامان ہے یا نہیں؟ 29اَیسا نہ ہو کہ جب نیو ڈال کر تیّار نہ کر سکے تو سب دیکھنے والے یہ کہہ کر اُس پر ہنسنا شرُوع کریں کہ 30اِس شخص نے عِمارت شرُوع تو کی مگر تکمِیل نہ کر سکا۔
31یا کَون اَیسا بادشاہ ہے جو دُوسرے بادشاہ سے لڑنے جاتا ہو اور پہلے بَیٹھ کر مشورَہ نہ کر لے کہ آیا مَیں دس ہزار سے اُس کا مُقابلہ کر سکتا ہُوں یا نہیں جو بِیس ہزار لے کر مُجھ پر چڑھا آتا ہے؟ 32نہیں تو جب وہ ہنُوز دُور ہی ہے ایلچی بھیج کر شرائطِ صُلح کی درخواست کرے گا۔ 33پس اِسی طرح تُم میں سے جو کوئی اپنا سب کُچھ ترک نہ کرے وہ میرا شاگِرد نہیں ہو سکتا۔
ناکارہ نمک
(متّی ۵‏:۱۳؛ مرقس ۹‏:۵۰)
34نمک اچھّا تو ہے لیکن اگر نمک کا مزہ جاتا رہے تو وہ کِس چِیز سے مزہ دار کِیا جائے گا؟ 35نہ وہ زمِین کے کام کا رہا نہ کھاد کے۔ لوگ اُسے باہر پھینک دیتے ہیں۔ جِس کے کان سُننے کے ہوں وہ سُن لے۔
کھوئی ہوئی بھیڑ
(متّی ۱۸‏:۱۲‏-۱۴)
1سب محصُول لینے والے اور گُنہگار اُس کے پاس آتے تھے تاکہ اُس کی باتیں سُنیں۔ 2اور فریسی اور فقِیہہ بُڑبُڑا کر کہنے لگے کہ یہ آدمی گُنہگاروں سے مِلتا اور اُن کے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ 3اُس نے اُن سے یہ تمثِیل کہی کہ
4تُم میں کَون اَیسا آدمی ہے جِس کے پاس سَو بھیڑیں ہوں اور اُن میں سے ایک کھو جائے تو نِنانوے کو بیابان میں چھوڑ کر اُس کھوئی ہُوئی کو جب تک مِل نہ جائے ڈُھونڈتا نہ رہے؟ 5پِھر جب مِل جاتی ہے تو وہ خُوش ہو کر اُسے کندھے پر اُٹھا لیتا ہے۔ 6اور گھر پہنچ کر دوستوں اور پڑوسِیوں کو بُلاتا اور کہتا ہے میرے ساتھ خُوشی کرو کیونکہ میری کھوئی ہُوئی بھیڑ مِل گئی۔ 7مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِسی طرح نِنانوے راست بازوں کی نِسبت جو تَوبہ کی حاجت نہیں رکھتے ایک تَوبہ کرنے والے گُنہگار کے باعِث آسمان پر زِیادہ خُوشی ہو گی۔
گُم شُدہ سکّہ
8یا کَون اَیسی عَورت ہے جِس کے پاس دس دِرہم ہوں اور ایک کھو جائے تو وہ چراغ جلا کر گھر میں جھاڑُو نہ دے اور جب تک مِل نہ جائے کوشِش سے ڈُھونڈتی نہ رہے؟ 9اور جب مِل جائے تو اپنی دوستوں اور پڑوسنوں کو بُلا کر نہ کہے کہ میرے ساتھ خُوشی کرو کیونکہ میرا کھویا ہُؤا دِرہم مِل گیا۔ 10مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِسی طرح ایک تَوبہ کرنے والے گُنہگار کے باعِث خُدا کے فرِشتوں کے سامنے خُوشی ہوتی ہے۔
کھویا ہُؤا بیٹا
11پِھر اُس نے کہا کہ کِسی شخص کے دو بیٹے تھے۔ 12اُن میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا اَے باپ! مال کا جو حِصّہ مُجھ کو پہنچتا ہے مُجھے دے دے۔ اُس نے اپنا مال متاع اُنہیں بانٹ دِیا۔ 13اور بُہت دِن نہ گُذرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کُچھ جمع کر کے دُور دراز مُلک کو روانہ ہُؤا اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اُڑا دِیا۔ 14اور جب سب خرچ کر چُکا تو اُس مُلک میں سخت کال پڑا اور وہ مُحتاج ہونے لگا۔ 15پِھر اُس مُلک کے ایک باشِندہ کے ہاں جا پڑا۔ اُس نے اُس کو اپنے کھیتوں میں سُؤر چرانے بھیجا۔ 16اور اُسے آرزُو تھی کہ جو پَھلِیاں سُؤر کھاتے تھے اُن ہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔ 17پِھر اُس نے ہوش میں آ کر کہا میرے باپ کے بُہت سے مزدُوروں کو اِفراط سے روٹی مِلتی ہے اور مَیں یہاں بُھوکا مَر رہا ہُوں! 18مَیں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اُس سے کہُوں گا اَے باپ! مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گُنہگار ہُؤا۔ 19اب اِس لائِق نہیں رہا کہ پِھر تیرا بیٹا کہلاؤُں۔ مُجھے اپنے مزدُوروں جَیسا کر لے۔ 20پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا۔
وہ ابھی دُور ہی تھا کہ اُسے دیکھ کر اُس کے باپ کو ترس آیا اور دَوڑ کر اُس کو گلے لگا لِیا اور چُوما۔ 21بیٹے نے اُس سے کہا اَے باپ! مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گُنہگار ہُؤا۔ اَب اِس لائِق نہیں رہا کہ پِھر تیرا بیٹا کہلاؤُں۔ 22باپ نے اپنے نَوکروں سے کہا اچھّے سے اچّھا لِباس جلد نِکال کر اُسے پہناؤ اور اُس کے ہاتھ میں انگُوٹھی اور پاؤں میں جُوتی پہناؤ۔ 23اور پَلے ہُوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تاکہ ہم کھا کر خُوشی منائیں۔ 24کیونکہ میرا یہ بیٹا مُردہ تھا۔ اب زِندہ ہُؤا۔ کھو گیا تھا۔ اب مِلا ہے۔ پس وہ خُوشی منانے لگے۔
25لیکن اُس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ جب وہ آ کر گھر کے نزدِیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سُنی۔ 26اور ایک نَوکر کو بُلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ 27اُس نے اُس سے کہا تیرا بھائی آ گیا ہے اور تیرے باپ نے پَلا ہُؤا بچھڑا ذبح کرایا ہے کیونکہ اُسے بھلا چنگا پایا۔
28وہ غُصّے ہُؤا اور اندر جانا نہ چاہا مگر اُس کا باپ باہر جا کر اُسے منانے لگا۔ 29اُس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا دیکھ اِتنے برسوں سے مَیں تیری خِدمت کرتا ہُوں اور کبھی تیری حُکم عدُولی نہیں کی مگر مُجھے تُو نے کبھی ایک بکری کا بچّہ بھی نہ دِیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خُوشی مناتا۔ 30لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جِس نے تیرا مال متاع کسبِیوں میں اُڑا دِیا تو اُس کے لِئے تُو نے پَلا ہُؤا بچھڑا ذبح کرایا۔ 31اُس نے اُس سے کہا بیٹا! تُو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کُچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے۔ 32لیکن خُوشی منانا اور شادمان ہونا مُناسِب تھا کیونکہ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا۔ اب زِندہ ہُؤا کھویا ہُؤا تھا۔ اب مِلا ہے۔
مُعاملہ شناس مُنتظم
1پِھر اُس نے شاگِردوں سے بھی کہا کہ کِسی دَولت مند کا ایک مُختار تھا۔ اُس کی لوگوں نے اُس سے شِکایت کی کہ یہ تیرا مال اُڑاتا ہے۔ 2پس اُس نے اُس کو بُلا کر کہا کہ یہ کیا ہے جو مَیں تیرے حق میں سُنتا ہُوں؟ اپنی مُختاری کا حِساب دے کیونکہ آگے کو تُو مُختار نہیں رہ سکتا۔ 3اُس مُختار نے اپنے جی میں کہا کہ کیا کرُوں؟ کیونکہ میرا مالِک مُجھ سے مُختاری چِھینے لیتا ہے۔ مِٹّی تو مُجھ سے کھودی نہیں جاتی اور بِھیک مانگنے سے شرم آتی ہے۔ 4مَیں سمجھ گیا کہ کیا کرُوں تاکہ جب مُختاری سے مَوقُوف ہو جاؤُں تو لوگ مُجھے اپنے گھروں میں جگہ دیں۔
5پس اُس نے اپنے مالِک کے ایک ایک قرض دار کو بُلا کر پہلے سے پُوچھا کہ تُجھ پر میرے مالِک کا کیا آتا ہے؟ 6اُس نے کہا سَو من تیل۔ اُس نے اُس سے کہا اپنی دستاویز لے اور جلد بَیٹھ کر پچاس لِکھ دے۔ 7پِھر دُوسرے سے کہا تُجھ پر کیا آتا ہے؟ اُس نے کہا سَو من گیہُوں۔ اُس نے اُس سے کہا اپنی دستاویز لے کر اسّی لِکھ دے۔
8اور مالِک نے بے اِیمان مُختار کی تعرِیف کی اِس لِئے کہ اُس نے ہوشیاری کی تھی کیونکہ اِس جہان کے فرزند اپنے ہم جِنسوں کے ساتھ مُعاملات میں نُور کے فرزندوں سے زِیادہ ہوشیار ہیں۔
9اور مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ ناراستی کی دَولت سے اپنے لِئے دوست پَیدا کرو تاکہ جب وہ جاتی رہے تو یہ تُم کو ہمیشہ کے مسکنوں میں جگہ دیں۔ 10جو تھوڑے میں دِیانت دار ہے وہ بُہت میں بھی دِیانت دار ہے اور جو تھوڑے میں بددِیانت ہے وہ بُہت میں بھی بددِیانت ہے۔ 11پس جب تُم ناراست دَولت میں دِیانت دار نہ ٹھہرے تو حقِیقی دَولت کَون تُمہارے سپُرد کرے گا؟ 12اور اگر تُم بیگانہ مال میں دِیانت دار نہ ٹھہرے تو جو تُمہارا اپنا ہے اُسے کَون تُمہیں دے گا؟
13کوئی نَوکر دو مالِکوں کی خِدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھّے گا اور دُوسرے سے مُحبّت یا ایک سے مِلا رہے گا اور دُوسرے کو ناچِیز جانے گا۔ تُم خُدا اور دَولت دونوں کی خِدمت نہیں کر سکتے۔
یِسُوع کے چند مقُولے
(متّی ۵‏:۳۱‏-۳۲؛ ۱۱‏:۱۲‏-۱۳؛ مرقس ۱۰‏:۱۱‏-۱۲)
14فریسی جو زر دوست تھے اِن سب باتوں کو سُن کر اُسے ٹھٹّھے میں اُڑانے لگے۔ 15اُس نے اُن سے کہا کہ تُم وہ ہو کہ آدمِیوں کے سامنے اپنے آپ کو راست باز ٹھہراتے ہو لیکن خُدا تُمہارے دِلوں کو جانتا ہے کیونکہ جو چِیز آدمِیوں کی نظر میں عالی قدر ہے وہ خُدا کے نزدِیک مکرُوہ ہے۔
16شرِیعت اور انبِیا یُوحنّا تک رہے۔ اُس وقت سے خُدا کی بادشاہی کی خُوشخبری دی جاتی ہے اور ہر ایک زور مار کر اُس میں داخِل ہوتا ہے۔ 17لیکن آسمان اور زمِین کا ٹل جانا شرِیعت کے ایک نُقطہ کے مِٹ جانے سے آسان ہے۔
18جو کوئی اپنی بِیوی کو چھوڑ کر دُوسری سے بیاہ کرے وہ زِنا کرتا ہے اور جو شخص شَوہر کی چھوڑی ہُوئی عَورت سے بیاہ کرے وہ بھی زِنا کرتا ہے۔
دَولت مند آدمی اور لعزر
19ایک دَولت مند تھا جو ارغوانی اور مہِین کپڑے پہنتا اور ہر روز خُوشی مناتا اور شان و شوکت سے رہتا تھا۔ 20اور لعزر نام ایک غرِیب ناسُوروں سے بھرا ہُؤا اُس کے دروازہ پر ڈالا گیا تھا۔ 21اُسے آرزُو تھی کہ دَولت مند کی میز سے گِرے ہُوئے ٹُکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے بلکہ کُتّے بھی آ کر اُس کے ناسُور چاٹتے تھے۔
22اور اَیسا ہُؤا کہ وہ غرِیب مَر گیا اور فرِشتوں نے اُسے لے جا کر ابرہامؔ کی گود میں پُہنچا دِیا اور دَولت مند بھی مُؤا اور دفن ہُؤا۔ 23اُس نے عالَمِ اَرواح کے درمِیان عذاب میں مُبتلا ہو کر اپنی آنکھیں اُٹھائِیں اور ابرہامؔ کو دُور سے دیکھا اور اُس کی گود میں لعزر کو۔ 24اور اُس نے پُکار کر کہا اَے باپ ابرہامؔ مُجھ پر رحم کر کے لعزر کو بھیج کہ اپنی اُنگلی کا سِرا پانی میں بِھگو کر میری زُبان تر کرے کیونکہ مَیں اِس آگ میں تڑپتا ہُوں۔
25ابرہامؔ نے کہا بیٹا! یاد کر کہ تُو اپنی زِندگی میں اپنی اچھّی چِیزیں لے چُکا اور اُسی طرح لعزر بُری چِیزیں لیکن اب وہ یہاں تسلّی پاتا ہے اور تُو تڑپتا ہے۔ 26اور اِن سب باتوں کے سِوا ہمارے تُمہارے درمِیان ایک بڑا گڑھا واقِع ہے۔ اَیسا کہ جو یہاں سے تُمہاری طرف پار جانا چاہیں نہ جا سکیں اور نہ کوئی اُدھر سے ہماری طرف آ سکے۔ 27اُس نے کہا پس اَے باپ! مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ تُو اُسے میرے باپ کے گھر بھیج۔ 28کیونکہ میرے پانچ بھائی ہیں تاکہ وہ اُن کے سامنے اِن باتوں کی گواہی دے۔ اَیسا نہ ہو کہ وہ بھی اِس عذاب کی جگہ میں آئیں۔
29ابرہامؔ نے اُس سے کہا اُن کے پاس مُوسیٰ اور انبِیا تو ہیں۔ اُن کی سُنیں۔ 30اُس نے کہا نہیں اَے باپ ابرہامؔ۔ ہاں اگر کوئی مُردوں میں سے اُن کے پاس جائے تو وہ تَوبہ کریں گے۔ 31اُس نے اُس سے کہا کہ جب وہ مُوسیٰ اور نبِیوں ہی کی نہیں سُنتے تو اگر مُردوں میں سے کوئی جی اُٹھے تو اُس کی بھی نہ مانیں گے۔
گُناہ
(متّی ۱۸‏:۶‏-۷، ۲۱‏-۲۲؛ مرقس ۹‏:۴۲)
1پِھر اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ ٹھوکریں نہ لگیں لیکن اُس پر افسوس ہے جِس کے باعِث سے لگیں! 2اِن چھوٹوں میں سے ایک کو ٹھوکر کِھلانے کی بہ نِسبت اُس شخص کے لِئے یہ بہتر ہوتا کہ چکّی کا پاٹ اُس کے گلے میں لٹکایا جاتا اور وہ سمُندر میں پھینکا جاتا۔ 3خبردار رہو!
اگر تیرا بھائی گُناہ کرے تو اُسے ملامت کر۔ اگر تَوبہ کرے تو اُسے مُعاف کر۔ 4اور اگر وہ ایک دِن میں سات دفعہ تیرا گُناہ کرے اور ساتوں دفعہ تیرے پاس پِھر آ کر کہے کہ تَوبہ کرتا ہُوں تو اُسے مُعاف کر۔
اِیمان
5اِس پر رسُولوں نے خُداوند سے کہا ہمارے اِیمان کو بڑھا۔
6خُداوند نے کہا کہ اگر تُم میں رائی کے دانے کے برابر بھی اِیمان ہوتا اور تُم اِس تُوت کے درخت سے کہتے کہ جڑ سے اُکھڑ کر سمُندر میں جا لگ تو تُمہاری مانتا۔
نَوکر کا فرض
7مگر تُم میں سے اَیسا کَون ہے جِس کا نَوکر ہل جوتتا یا گلّہ بانی کرتا ہو اور جب وہ کھیت سے آئے تو اُس سے کہے کہ جلد آ کر کھانا کھانے بَیٹھ؟ 8اور یہ نہ کہے کہ میرا کھانا تیّار کر اور جب تک مَیں کھاؤُں پِیُوں کمر باندھ کر میری خِدمت کر۔ اُس کے بعد تُو خُود کھا پی لینا؟ 9کیا وہ اِس لِئے اُس نَوکر کا اِحسان مانے گا کہ اُس نے اُن باتوں کی جِن کا حُکم ہُؤا تعمِیل کی؟ 10اِسی طرح تُم بھی جب اُن سب باتوں کی جِن کا تُمہیں حُکم ہُؤا تعمِیل کر چُکو تو کہو کہ ہم نِکمّے نَوکر ہیں۔ جو ہم پر کرنا فرض تھا وُہی کِیا ہے۔
یِسُوع دَس آدمِیوں کو شِفا دیتا ہے
11اور اَیسا ہُؤا کہ یروشلِیم کو جاتے ہُوئے وہ سامرؔیہ اور گلِیل کے بِیچ سے ہو کر جا رہا تھا۔ 12اور ایک گاؤں میں داخِل ہوتے وقت دس کوڑھی اُس کو مِلے۔ 13اُنہوں نے دُور کھڑے ہو کر بُلند آواز سے کہا اَے یِسُوعؔ! اَے صاحِب! ہم پر رحم کر۔
14اُس نے اُنہیں دیکھ کر کہا جاؤ۔ اپنے تئِیں کاہِنوں کو دِکھاؤ اور اَیسا ہُؤا کہ وہ جاتے جاتے پاک صاف ہو گئے۔ 15پِھر اُن میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ مَیں شِفا پا گیا بُلند آواز سے خُدا کی تمجِید کرتا ہُؤا لَوٹا۔ 16اور مُنہ کے بَل یِسُوعؔ کے پاؤں پر گِر کر اُس کا شُکر کرنے لگا اور وہ سامری تھا۔ 17یِسُوعؔ نے جواب میں کہا کیا دَسوں پاک صاف نہ ہُوئے؟ پِھر وہ نَو کہاں ہیں؟ 18کیا اِس پردیسی کے سِوا اَور نہ نِکلے جو لَوٹ کر خُدا کی تمجِید کرتے؟ 19پِھر اُس سے کہا اُٹھ کر چلا جا۔ تیرے اِیمان نے تُجھے اچھّا کِیا ہے۔
خُدا کی بادشاہی کی آمد
(متّی ۲۴‏:۲۳‏-۲۸، ۳۷‏-۴۱)
20جب فریسیوں نے اُس سے پُوچھا کہ خُدا کی بادشاہی کب آئے گی؟ تو اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ خُدا کی بادشاہی ظاہِری طَور پر نہ آئے گی۔ 21اور لوگ یہ نہ کہیں گے کہ دیکھو یہاں ہے یا وہاں ہے! کیونکہ دیکھو خُدا کی بادشاہی تُمہارے درمِیان ہے۔
22اُس نے شاگِردوں سے کہا وہ دِن آئیں گے کہ تُم کو اِبنِ آدمؔ کے دِنوں میں سے ایک دِن کو دیکھنے کی آرزُو ہو گی اور نہ دیکھو گے۔ 23اور لوگ تُم سے کہیں گے کہ دیکھو وہاں ہے! یا دیکھو یہاں ہے! مگر تُم چلے نہ جانا نہ اُن کے پِیچھے ہو لینا۔ 24کیونکہ جَیسے بِجلی آسمان کی ایک طرف سے کَوند کر دُوسری طرف چمکتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ اپنے دِن میں ظاہِر ہو گا۔ 25لیکن پہلے ضرُور ہے کہ وہ بُہت دُکھ اُٹھائے اور اِس زمانہ کے لوگ اُسے رَدّ کریں۔ 26اور جَیسا نُوح کے دِنوں میں ہُؤا تھا اُسی طرح اِبنِ آدمؔ کے دِنوں میں بھی ہو گا۔ 27کہ لوگ کھاتے پِیتے تھے اور اُن میں بیاہ شادی ہوتی تھی۔ اُس دِن تک جب نُوح کشتی میں داخِل ہُؤا اور طُوفان نے آ کر سب کو ہلاک کِیا۔ 28اور جَیسا لُوط کے دِنوں میں ہُؤا تھا کہ لوگ کھاتے پِیتے اور خرِید و فروخت کرتے اور درخت لگاتے اور گھر بناتے تھے۔ 29لیکن جِس دِن لُوط سدُوم سے نِکلا آگ اور گندھک نے آسمان سے بَرس کر سب کو ہلاک کِیا۔ 30اِبنِ آدمؔ کے ظاہِر ہونے کے دِن بھی اَیسا ہی ہو گا۔
31اُس دِن جو کوٹھے پر ہو اَور اُس کا اسباب گھر میں ہو وہ اُسے لینے کو نہ اُترے اور اِسی طرح جو کھیت میں ہو وہ پِیچھے کو نہ لَوٹے۔ 32لُوط کی بِیوی کو یاد رکھّو۔ 33جو کوئی اپنی جان بچانے کی کوشِش کرے وہ اُسے کھوئے گا اور جو کوئی اُسے کھوئے وہ اُس کو زِندہ رکھّے گا۔ 34مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اُس رات دو آدمی ایک چارپائی پر سوتے ہوں گے۔ ایک لے لِیا جائے گا اور دُوسرا چھوڑ دِیا جائے گا۔ 35دو عَورتیں ایک ساتھ چکّی پِیستی ہوں گی۔ ایک لے لی جائے گی اور دُوسری چھوڑ دی جائے گی۔ 36[دو آدمی جو کھیت میں ہوں گے ایک لے لِیا جائے گا اور دُوسرا چھوڑ دِیا جائے گا]۔
37اُنہوں نے جواب میں اُس سے کہا کہ اَے خُداوند! یہ کہاں ہو گا؟
اُس نے اُن سے کہا جہاں مُردار ہے وہاں گِدھ بھی جمع ہوں گے۔
بیوہ اور قاضی کی تمثِیل
1پِھر اُس نے اِس غرض سے کہ ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہِمّت نہ ہارنا چاہیے اُن سے یہ تمثِیل کہی کہ 2کِسی شہر میں ایک قاضی تھا۔ نہ وہ خُدا سے ڈرتا نہ آدمی کی کُچھ پروا کرتا تھا۔ 3اور اُسی شہر میں ایک بیوہ تھی جو اُس کے پاس آ کر یہ کہا کرتی تھی کہ میرا اِنصاف کر کے مُجھے مُدّعی سے بچا۔ 4اُس نے کُچھ عرصہ تک تو نہ چاہا لیکن آخِر اُس نے اپنے جی میں کہا کہ گو مَیں نہ خُدا سے ڈرتا اور نہ آدمِیوں کی کُچھ پروا کرتا ہُوں۔ 5تَو بھی اِس لِئے کہ یہ بیوہ مُجھے ستاتی ہے مَیں اِس کا اِنصاف کرُوں گا۔ اَیسا نہ ہو کہ یہ بار بار آ کر آخِر کو میرا ناک میں دَم کرے۔
6خُداوند نے کہا سُنو! یہ بے اِنصاف قاضی کیا کہتا ہے۔ 7پس کیا خُدا اپنے برگُزِیدوں کا اِنصاف نہ کرے گا جو رات دِن اُس سے فریاد کرتے ہیں؟ اور کیا وہ اُن کے بارے میں دیر کرے گا؟ 8مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ وہ جلد اُن کا اِنصاف کرے گا۔ تَو بھی جب اِبنِ آدمؔ آئے گا تو کیا زمِین پر اِیمان پائے گا؟
فریسی اور محصُول لینے والے کی تمثِیل
9پِھر اُس نے بعض لوگوں سے جو اپنے پر بھروسا رکھتے تھے کہ ہم راست باز ہیں اور باقی آدمِیوں کو ناچِیز جانتے تھے یہ تمثِیل کہی۔ 10کہ دو شخص ہَیکل میں دُعا کرنے گئے۔ ایک فریسی۔ دُوسرا محصُول لینے والا۔
11فریسی کھڑا ہو کر اپنے جی میں یُوں دُعا کرنے لگا کہ اَے خُدا! مَیں تیرا شُکر کرتا ہُوں کہ باقی آدمِیوں کی طرح ظالِم بے اِنصاف زِنا کار یا اِس محصُول لینے والے کی مانِند نہیں ہُوں۔ 12مَیں ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتا اور اپنی ساری آمدنی پر دَہ یکی دیتا ہُوں۔
13لیکن محصُول لینے والے نے دُور کھڑے ہو کر اِتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے بلکہ چھاتی پِیٹ پِیٹ کر کہا اَے خُدا! مُجھ گُنہگار پر رحم کر۔ 14مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ یہ شخص دُوسرے کی نِسبت راست باز ٹھہر کر اپنے گھر گیا کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کِیا جائے گا۔
یِسُوع چھوٹے بچّوں کو برکت دیتا ہے
(متّی ۱۹‏:۱۳‏-۱۵؛ مرقس ۱۰‏:۱۳‏-۱۶)
15پِھر لوگ اپنے چھوٹے بچّوں کو بھی اُس کے پاس لانے لگے تاکہ وہ اُن کو چُھوئے اور شاگِردوں نے دیکھ کر اُن کو جِھڑکا۔ 16مگر یِسُوعؔ نے بچّوں کو اپنے پاس بُلایا اور کہا کہ بچّوں کو میرے پاس آنے دو اور اُنہیں منع نہ کرو کیونکہ خُدا کی بادشاہی اَیسوں ہی کی ہے۔ 17مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کوئی خُدا کی بادشاہی کو بچّے کی طرح قبُول نہ کرے وہ اُس میں ہرگِز داخِل نہ ہو گا۔
ایک دَولت مند آدمی
(متّی ۱۹‏:۱۶‏-۳۰؛ مرقس ۱۰‏:۱۷‏-۳۱)
18پِھر کِسی سردار نے اُس سے یہ سوال کِیا کہ اَے نیک اُستاد! مَیں کیا کرُوں تاکہ ہمیشہ کی زِندگی کا وارِث بنُوں؟
19یِسُوعؔ نے اُس سے کہا تُو مُجھے کیوں نیک کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خُدا۔ 20تُو حُکموں کو تو جانتا ہے۔ زِنا نہ کر۔ خُون نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جُھوٹی گواہی نہ دے۔ اپنے باپ کی اور ماں کی عِزّت کر۔
21اُس نے کہا مَیں نے لڑکپن سے اِن سب پر عمل کِیا ہے۔
22یِسُوعؔ نے یہ سُن کر اُس سے کہا ابھی تک تُجھ میں ایک بات کی کمی ہے۔ اپنا سب کُچھ بیچ کر غرِیبوں کو بانٹ دے۔ تُجھے آسمان پر خزانہ مِلے گا اور آ کر میرے پِیچھے ہو لے۔ 23یہ سُن کر وہ بُہت غمگِین ہُؤا کیونکہ بڑا دَولت مند تھا۔
24یِسُوعؔ نے اُس کو دیکھ کر کہا کہ دَولت مندوں کا خُدا کی بادشاہی میں داخِل ہونا کَیسا مُشکل ہے! 25کیونکہ اُونٹ کا سُوئی کے ناکے میں سے نِکل جانا اِس سے آسان ہے کہ دَولت مند خُدا کی بادشاہی میں داخِل ہو۔
26سُننے والوں نے کہا تو پِھر کَون نجات پا سکتا ہے؟
27اُس نے کہا جو اِنسان سے نہیں ہو سکتا وہ خُدا سے ہو سکتا ہے۔
28پطرؔس نے کہا دیکھ ہم تو اپنا گھر بار چھوڑ کر تیرے پِیچھے ہو لِئے ہیں۔
29اُس نے اُن سے کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اَیسا کوئی نہیں جِس نے گھر یا بِیوی یا بھائِیوں یا ماں باپ یا بچّوں کو خُدا کی بادشاہی کی خاطِر چھوڑ دِیا ہو۔ 30اور اِس زمانہ میں کئی گُنا زِیادہ نہ پائے اور آنے والے عالَم میں ہمیشہ کی زِندگی۔
یِسُوع تِیسری بار اپنی مَوت کا ذکر کرتا ہے
(متّی ۲۰‏:۱۷‏-۱۹؛ مرقس ۱۰‏:۳۲‏-۳۴)
31پِھر اُس نے اُن بارہ کو ساتھ لے کر اُن سے کہا کہ دیکھو ہم یروشلِیم کو جاتے ہیں اور جِتنی باتیں نبِیوں کی معرفت لِکھی گئی ہیں اِبنِ آدمؔ کے حق میں پُوری ہوں گی۔ 32کیونکہ وہ غیر قَوم والوں کے حوالہ کِیا جائے گا اور لوگ اُس کو ٹھٹّھوں میں اُڑائیں گے اور بے عِزّت کریں گے اور اُس پر تُھوکیں گے۔ 33اور اُس کو کوڑے ماریں گے اور قتل کریں گے اور وہ تِیسرے دِن جی اُٹھے گا۔
34لیکن اُنہوں نے اِن میں سے کوئی بات نہ سمجھی اور یہ قَول اُن پر پوشِیدہ رہا اور اِن باتوں کا مطلب اُن کی سمجھ میں نہ آیا۔
یِسُوع ایک اندھے بھکاری کو شِفا دیتا ہے
(۲۰‏:۲۹‏-۳۴؛ مرقس ۱۰‏:۴۶‏-۵۲)
35جب وہ چلتے چلتے یریحُو کے نزدِیک پہنچا تو اَیسا ہُؤا کہ ایک اندھا راہ کے کنارے بَیٹھا ہُؤا بِھیک مانگ رہا تھا۔ 36وہ بِھیڑ کے جانے کی آواز سُن کر پُوچھنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟
37اُنہوں نے اُسے خبر دی کہ یِسُوعؔ ناصری جا رہا ہے۔
38اُس نے چِلاّ کر کہا اَے یِسُوعؔ اِبنِ داؤُد مُجھ پر رحم کر۔
39جو آگے جاتے تھے وہ اُس کو ڈانٹنے لگے کہ چُپ رہے مگر وہ اَور بھی چِلاّیا کہ اَے اِبنِ داؤُد مُجھ پر رحم کر۔
40یِسُوعؔ نے کھڑے ہو کر حُکم دِیا کہ اُس کو میرے پاس لاؤ۔ جب وہ نزدِیک آیا تو اُس نے اُس سے یہ پُوچھا۔ 41تُو کیا چاہتا ہے کہ مَیں تیرے لِئے کرُوں؟
اُس نے کہا اَے خُداوند یہ کہ مَیں بِینا ہو جاؤں۔
42یِسُوع نے اُس سے کہا بِینا ہو جا۔ تیرے اِیمان نے تُجھے اچّھا کِیا۔
43وہ اُسی دَم بِینا ہو گیا اور خُدا کی تمجِید کرتا ہُؤا اُس کے پِیچھے ہو لِیا اور سب لوگوں نے دیکھ کر خُدا کی حَمد کی۔
یِسُوع اور زکّائی
1وہ یریحُو میں داخِل ہو کر جا رہا تھا۔ 2اور دیکھو زکّاؔئی نام ایک آدمی تھا جو محصُول لینے والوں کا سردار اور دَولت مند تھا۔ 3وہ یِسُوعؔ کو دیکھنے کی کوشِش کرتا تھا کہ کَون سا ہے لیکن بِھیڑ کے سبب سے دیکھ نہ سکتا تھا۔ اِس لِئے کہ اُس کا قَد چھوٹا تھا۔ 4پس اُسے دیکھنے کے لِئے آگے دَوڑ کر ایک گُولر کے پیڑ پر چڑھ گیا کیونکہ وہ اُسی راہ سے جانے کو تھا۔ 5جب یِسُوعؔ اُس جگہ پُہنچا تو اُوپر نِگاہ کر کے اُس سے کہا اَے زکّاؔئی جلد اُتر آ کیونکہ آج مُجھے تیرے گھر رہنا ضرُور ہے۔
6وہ جلد اُتر کر اُس کو خُوشی سے اپنے گھر لے گیا۔ 7جب لوگوں نے یہ دیکھا تو سب بُڑبُڑا کر کہنے لگے کہ وہ تو ایک گُنہگار شخص کے ہاں جا اُترا۔
8اور زکّاؔئی نے کھڑے ہو کر خُداوند سے کہا اَے خُداوند دیکھ مَیں اپنا آدھا مال غرِیبوں کو دیتا ہُوں اور اگر کِسی کا کُچھ ناحق لے لِیا ہے تو اُس کو چَوگُنا ادا کرتا ہُوں۔
9یِسُوعؔ نے اُس سے کہا آج اِس گھر میں نجات آئی ہے۔ اِس لِئے کہ یہ بھی ابرہامؔ کا بیٹا ہے۔ 10کیونکہ اِبنِ آدمؔ کھوئے ہُوؤں کو ڈُھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔
اَشرفِیوں کی تمثِیل
(متّی ۲۵‏:۱۴‏-۳۰)
11جب وہ اِن باتوں کو سُن رہے تھے تو اُس نے ایک تمثِیل بھی کہی۔ اِس لِئے کہ یروشلِیم کے نزدِیک تھا اور وہ گُمان کرتے تھے کہ خُدا کی بادشاہی ابھی ظاہِر ہُؤا چاہتی ہے۔ 12پس اُس نے کہا کہ ایک امِیر دُور دراز مُلک کو چلا تاکہ بادشاہی حاصِل کر کے پِھر آئے۔ 13اُس نے اپنے نَوکروں میں سے دس کو بُلا کر اُنہیں دَس اشرفیاں دِیں اور اُن سے کہا کہ میرے واپس آنے تک لین دین کرنا۔ 14لیکن اُس کے شہر کے آدمی اُس سے عداوت رکھتے تھے اور اُس کے پِیچھے ایلچِیوں کی زُبانی کہلا بھیجا کہ ہم نہیں چاہتے کہ یہ ہم پر بادشاہی کرے۔
15جب وہ بادشاہی حاصِل کر کے پِھر آیا تو اَیسا ہُؤا کہ اُن نَوکروں کو بُلا بھیجا جِن کو رُوپیہ دِیا تھا۔ تاکہ معلُوم کرے کہ اُنہوں نے لین دین سے کیا کیا کمایا۔ 16پہلے نے حاضِر ہو کر کہا اَے خُداوند تیری اشرفی سے دس اشرفیاں پَیدا ہُوئِیں۔ 17اُس نے اُس سے کہا اَے اچھّے نَوکر شاباش! اِس لِئے کہ تُو نِہایت تھوڑے میں دِیانت دار نِکلا اب تو دَس شہروں پر اِختیار رکھ۔ 18دُوسرے نے آ کر کہا اَے خُداوند تیری اشرفی سے پانچ اشرفیاں پَیدا ہُوئِیں۔ 19اُس نے اُس سے بھی کہا کہ تُو بھی پانچ شہروں کا حاکِم ہو۔
20تِیسرے نے آ کر کہا اَے خُداوند دیکھ تیری اشرفی یہ ہے جِس کو مَیں نے رُومال میں باندھ رکھّا۔ 21کیونکہ مَیں تُجھ سے ڈرتا تھا۔ اِس لِئے کہ تُو سخت آدمی ہے۔ جو تُو نے نہیں رکھّا اُسے اُٹھا لیتا ہے اور جو تُو نے نہیں بویا اُسے کاٹتا ہے۔ 22اُس نے اُس سے کہا اَے شرِیر نَوکر مَیں تُجھ کو تیرے ہی مُنہ سے مُلزم ٹھہراتا ہُوں۔ تُو مُجھے جانتا تھا کہ سخت آدمی ہُوں اور جو مَیں نے نہیں رکھّا اُسے اُٹھا لیتا اور جو نہیں بویا اُسے کاٹتا ہُوں۔ 23پِھر تُو نے میرا رُوپیہ ساہُوکار کے ہاں کیوں نہ رکھ دِیا کہ مَیں آ کر اُسے سُود سمیت لے لیتا؟
24اور اُس نے اُن سے کہا جو پاس کھڑے تھے کہ وہ اشرفی اُس سے لے لو اور دَس اشرفی والے کو دے دو۔ 25(اُنہوں نے اُس سے کہا اَے خُداوند اُس کے پاس دَس اشرفیاں تو ہیں)۔ 26مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جِس کے پاس ہے اُس کو دِیا جائے گا اور جِس کے پاس نہیں اُس سے وہ بھی لے لِیا جائے گا جو اُس کے پاس ہے۔ 27مگر میرے اُن دُشمنوں کو جِنہوں نے نہ چاہا تھا کہ مَیں اُن پر بادشاہی کرُوں یہاں لا کر میرے سامنے قتل کرو۔
یروشلِیم میں شاہانہ داخلہ
(متّی ۲۱‏:۱‏-۱۱؛ مرقس ۱۱‏:۱‏-۱۱؛ یُوحنّا ۱۲‏:۱۲‏-۱۹)
28یہ باتیں کہہ کر وہ یروشلِیم کی طرف اُن کے آگے آگے چلا۔ 29جب وہ اُس پہاڑ پر جو زَیتُوؔن کا کہلاتا ہے بَیت فگے اور بَیت عَنِیاؔہ کے نزدِیک پُہنچا تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے شاگِردوں میں سے دو کو یہ کہہ کر بھیجا۔ 30کہ سامنے کے گاؤں میں جاؤ اور اُس میں داخِل ہوتے ہی ایک گدھی کا بچّہ بندھا ہُؤا مِلے گا جِس پر کبھی کوئی آدمی سوار نہیں ہُؤا۔ اُسے کھول لاؤ۔ 31اور اگر کوئی تُم سے پُوچھے کہ کیوں کھولتے ہو؟ تو یُوں کہہ دینا کہ خُداوند کو اِس کی ضرُورت ہے۔
32پس جو بھیجے گئے تھے اُنہوں نے جا کر جَیسا اُس نے اُن سے کہا تھا وَیسا ہی پایا۔ 33جب گدھی کے بچّہ کو کھول رہے تھے تو اُس کے مالِکوں نے اُن سے کہا کہ اِس بچّہ کو کیوں کھولتے ہو؟
34اُنہوں نے کہا کہ خُداوند کو اِس کی ضرُورت ہے۔ 35وہ اُس کو یِسُوعؔ کے پاس لے آئے اور اپنے کپڑے اُس بچّہ پر ڈال کر یِسُوعؔ کو سوار کِیا۔ 36جب جا رہا تھا تو وہ اپنے کپڑے راہ میں بِچھاتے جاتے تھے۔
37اور جب وہ شہر کے نزدِیک زَیتُوؔن کے پہاڑ کے اُتار پر پُہنچا تو شاگِردوں کی ساری جماعت اُن سب مُعجِزوں کے سبب سے جو اُنہوں نے دیکھے تھے خُوش ہو کر بُلند آواز سے خُدا کی حمد کرنے لگی۔ 38کہ مُبارک ہے وہ بادشاہ جو خُداوند کے نام سے آتا ہے۔ آسمان پر صُلح اور عالَمِ بالا پر جلال!
39بِھیڑ میں سے بعض فریسیوں نے اُس سے کہا اَے اُستاد! اپنے شاگِردوں کو ڈانٹ دے۔
40اُس نے جواب میں کہا مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اگر یہ چُپ رہیں تو پتّھر چِلاّ اُٹھیں گے۔
یِسُوع یروشلِیم پر روتا ہے
41جب نزدِیک آ کر شہر کو دیکھا تو اُس پر رویا اور کہا۔ 42کاش کہ تُو اپنے اِسی دِن میں سلامتی کی باتیں جانتا! مگر اب وہ تیری آنکھوں سے چِھپ گئی ہیں۔ 43کیونکہ وہ دِن تُجھ پر آئیں گے کہ تیرے دُشمن تیرے گِرد مورچہ باندھ کر تُجھے گھیر لیں گے اور ہر طرف سے تنگ کریں گے۔ 44اور تُجھ کو اور تیرے بچّوں کو جو تُجھ میں ہیں زمِین پر دے پٹکیں گے اور تُجھ میں کِسی پتّھر پر پتّھر باقی نہ چھوڑیں گے اِس لِئے کہ تُو نے اُس وقت کو نہ پہچانا جب تُجھ پر نِگاہ کی گئی۔
یِسُوع ہَیکل میں جاتا ہے
(متّی ۲۱‏:۱۲‏-۱۷؛ مرقس ۱۱‏:۱۵‏-۱۹؛ یُوحنّا ۲‏:۱۳‏-۲۲)
45پِھر وہ ہَیکل میں جا کر بیچنے والوں کو نِکالنے لگا۔ 46اور اُن سے کہا لِکھا ہے کہ میرا گھر دُعا کا گھر ہو گا مگر تُم نے اُس کو ڈاکُوؤں کی کھوہ بنا دِیا۔
47اور وہ ہر روز ہَیکل میں تعلِیم دیتا تھا مگر سردار کاہِن اور فقِیہہ اور قَوم کے رئِیس اُس کے ہلاک کرنے کی کوشِش میں تھے۔ 48لیکن کوئی تدبِیر نہ نِکال سکے کہ یہ کِس طرح کریں کیونکہ سب لوگ بڑے شَوق سے اُس کی سُنتے تھے۔
یِسُوع کے اِختیار پر اِعتراض
(متّی ۲۱‏:۲۳‏-۲۷؛ مرقس ۱۱‏:۲۷‏-۳۳)
1اُن دِنوں میں ایک روز اَیسا ہُؤا کہ جب وہ ہَیکل میں لوگوں کو تعلِیم اور خُوشخبری دے رہا تھا تو سردار کاہِن اور فقِیہہ بزُرگوں کے ساتھ اُس کے پاس آ کھڑے ہُوئے۔ 2اور کہنے لگے کہ ہمیں بتا۔ تُو اِن کاموں کو کِس اِختیار سے کرتا ہے یا کَون ہے جِس نے تُجھ کو یہ اِختیار دِیا ہے؟
3اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ مَیں بھی تُم سے ایک بات پُوچھتا ہُوں۔ مُجھے بتاؤ۔ 4یُوحنّا کا بپتِسمہ آسمان کی طرف سے تھا یا اِنسان کی طرف سے؟
5اُنہوں نے آپس میں کہا کہ اگر ہم کہیں آسمان کی طرف سے تو وہ کہے گا تُم نے کیوں اُس کا یقِین نہ کِیا؟ 6اور اگر کہیں کہ اِنسان کی طرف سے تو سب لوگ ہم کو سنگسار کریں گے کیونکہ اُنہیں یقِین ہے کہ یُوحنّا نبی تھا۔ 7پس اُنہوں نے جواب دِیا ہم نہیں جانتے کہ کِس کی طرف سے تھا۔
8یِسُوع نے اُن سے کہا مَیں بھی تُمہیں نہیں بتاتا کہ اِن کاموں کو کِس اِختیار سے کرتا ہُوں۔
تاکِستان کے ٹھکیداروں کی تمثِیل
(متّی ۲۱‏:۳۳‏-۴۶؛ مرقس ۱۲‏:۱‏-۱۲)
9پِھر اُس نے لوگوں سے یہ تمثِیل کہنی شرُوع کی کہ ایک شخص نے تاکِستان لگا کر باغبانوں کو ٹھیکے پر دِیا اور ایک بڑی مُدّت کے لِئے پردیس چلا گیا۔ 10اور پَھل کے مَوسم پر اُس نے ایک نَوکر باغبانوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ تاکِستان کے پَھل کا حِصّہ اُسے دیں لیکن باغبانوں نے اُس کو پِیٹ کر خالی ہاتھ لَوٹا دِیا۔ 11پِھر اُس نے ایک اَور نَوکر بھیجا۔ اُنہوں نے اُس کو بھی پِیٹ کر اور بے عِزّت کر کے خالی ہاتھ لَوٹا دِیا۔ 12پِھر اُس نے تِیسرا بھیجا۔ اُنہوں نے اُس کو بھی زخمی کر کے نِکال دِیا۔ 13اِس پر تاکِستان کے مالِک نے کہا کہ کیا کرُوں؟ مَیں اپنے پیارے بیٹے کو بھیجُوں گا۔ شاید اُس کا لِحاظ کریں۔ 14جب باغبانوں نے اُسے دیکھا تو آپس میں صلاح کر کے کہا یِہی وارِث ہے۔ اِسے قتل کریں کہ مِیراث ہماری ہو جائے۔ 15پس اُس کو تاکِستان سے باہر نِکال کر قتل کِیا۔
اب تاکِستان کا مالِک اُن کے ساتھ کیا کرے گا؟ 16وہ آ کر اُن باغبانوں کو ہلاک کرے گا اور تاکِستان اَوروں کو دے دے گا
اُنہوں نے یہ سُن کر کہا خُدا نہ کرے۔
17اُس نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا۔ پِھر یہ کیا لِکھا ہے کہ
جِس پتّھر کو مِعماروں نے رَدّ کِیا
وُہی کونے کے سِرے کا پتّھر ہو گیا؟
18جو کوئی اُس پتّھر پر گِرے گا اُس کے ٹُکڑے ٹُکڑے ہو جائیں گے لیکن جِس پر وہ گِرے گا اُسے پِیس ڈالے گا۔
خراج دینے کی بابت سوال
(متّی ۲۲‏:۱۵‏-۲۲؛ مرقس ۱۲‏:۱۳‏-۱۷)
19اُسی گھڑی فقِیہوں اور سردار کاہِنوں نے اُسے پکڑنے کی کوشِش کی مگر لوگوں سے ڈرے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ اُس نے یہ تمثِیل ہم پر کہی۔ 20اور وہ اُس کی تاک میں لگے اور جاسُوس بھیجے کہ راست باز بن کر اُس کی کوئی بات پکڑیں تاکہ اُس کو حاکِم کے قبضہ اور اِختیار میں دے دیں۔ 21اُنہوں نے اُس سے یہ سوال کِیا کہ اَے اُستاد ہم جانتے ہیں کہ تیرا کلام اور تعلِیم درُست ہے اور تُو کِسی کی طرف داری نہیں کرتا بلکہ سچّائی سے خُدا کی راہ کی تعلِیم دیتا ہے۔ 22ہمیں قَیصر کو خراج دینا روا ہے یا نہیں؟
23اُس نے اُن کی مَکّاری معلُوم کر کے اُن سے کہا۔ 24ایک دِینار مُجھے دِکھاؤ۔ اُس پر کِس کی صُورت اور نام ہے؟
اُنہوں نے کہا قَیصر کا۔
25اُس نے اُن سے کہا پس جو قَیصر کا ہے قَیصر کو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو ادا کرو۔
26وہ لوگوں کے سامنے اُس قَول کو پکڑ نہ سکے بلکہ اُس کے جواب سے تعجُّب کر کے چُپ ہو رہے۔
مُردوں کی قِیامت کی بابت سوال
(متّی ۲۲‏:۲۳‏-۳۳؛ مرقس ۱۲‏:۱۸‏-۲۷)
27پِھر صدُوقی جو کہتے ہیں کہ قِیامت نہیں ہوگی اُن میں سے بعض نے اُس کے پاس آ کر یہ سوال کِیا کہ 28اَے اُستاد مُوسیٰ نے ہمارے لِئے لِکھا ہے کہ اگر کِسی کا بیاہا ہُؤا بھائی بے اَولاد مَر جائے تو اُس کا بھائی اُس کی بِیوی کو کر لے اور اپنے بھائی کے لِئے نسل پَیدا کرے۔ 29چُنانچہ سات بھائی تھے۔ پہلے نے بِیوی کی اور بے اَولاد مَر گیا۔ 30پِھر دُوسرے نے اُسے لِیا اور تِیسرے نے بھی۔ 31اِسی طرح ساتوں بے اَولاد مَر گئے۔ 32آخِر کو وہ عَورت بھی مَر گئی۔ 33پس قِیامت میں وہ عَورت اُن میں سے کِس کی بِیوی ہو گی؟ کیونکہ وہ ساتوں کی بِیوی بنی تھی۔
34یِسُوعؔ نے اُن سے کہا کہ اِس جہان کے فرزندوں میں تو بیاہ شادی ہوتی ہے۔ 35لیکن جو لوگ اِس لائِق ٹھہریں گے کہ اُس جہان کو حاصِل کریں اور مُردوں میں سے جی اُٹھیں اُن میں بیاہ شادی نہ ہو گی۔ 36کیونکہ وہ پِھر مَرنے کے بھی نہیں اِس لِئے کہ فرِشتوں کے برابر ہوں گے اور قِیامت کے فرزند ہو کر خُدا کے بھی فرزند ہوں گے۔ 37لیکن اِس بات کو کہ مُردے جی اُٹھتے ہیں مُوسیٰ نے بھی جھاڑی کے ذِکر میں ظاہِر کِیا ہے۔ چُنانچہ وہ خُداوند کو ابرہامؔ کا خُدا اور اِضحاقؔ کا خُدا اور یعقُوبؔ کا خُدا کہتا ہے۔ 38لیکن خُدا مُردوں کا خُدا نہیں بلکہ زِندوں کا ہے کیونکہ اُس کے نزدِیک سب زِندہ ہیں۔
39تب بعض فقِیہوں نے جواب میں اُس سے کہا کہ اَے اُستاد تُو نے خُوب فرمایا۔ 40کیونکہ اُن کو اُس سے پِھر کوئی سوال کرنے کی جُرأت نہ ہُوئی۔
مسِیح مَوعُود کے بارے میں سوال
(متّی ۲۲‏:۴۱‏-۴۶؛ مرقس ۱۲‏:۳۵‏-۳۷)
41پِھر اُس نے اُن سے کہا مسِیح کو کِس طرح داؤُد کا بیٹا کہتے ہیں؟ 42داؤُد تو زبُور میں آپ کہتا ہے کہ
خُداوند نے میرے خُداوند سے کہا
میری دہنی طرف بَیٹھ۔
43جب تک مَیں تیرے دُشمنوں کو تیرے پاؤں
تلے کی چَوکی نہ کر دُوں۔
44پس داؤُد تو اُسے خُداوند کہتا ہے پِھر وہ اُس کا بیٹا کیوں کر ٹھہرا؟
یِسُوع فقِیہوں کے خِلاف خبردار کرتا ہے
(متّی ۲۳‏:۱‏-۳۶؛ مرقس ۱۲‏:۳۸‏-۴۰)
45جب سب لوگ سُن رہے تھے تو اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا۔ 46کہ فقِیہوں سے خبردار رہنا جو لمبے لمبے جامے پہن کر پِھرنے کا شَوق رکھتے ہیں اور بازاروں میں سلام اور عِبادت خانوں میں اعلیٰ درجہ کی کُرسِیاں اور ضِیافتوں میں صدر نشِینی پسند کرتے ہیں۔ 47وہ بیواؤں کے گھروں کو دبا بَیٹھتے ہیں اور دِکھاوے کے لِئے نماز کو طُول دیتے ہیں۔ اِنہیں زِیادہ سزا ہو گی۔
ایک بیوہ کا نذرانہ
(مرقس ۱۲‏:۴۱‏-۴۴)
1پِھر اُس نے آنکھ اُٹھا کر اُن دَولت مندوں کو دیکھا جو اپنی نذروں کے رُوپَے ہَیکل کے خزانہ میں ڈال رہے تھے۔ 2اور ایک کنگال بیوہ کو بھی اُس میں دو دَمڑیاں ڈالتے دیکھا۔ 3اِس پر اُس نے کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اِس کنگال بیوہ نے سب سے زِیادہ ڈالا۔ 4کیونکہ اُن سب نے تو اپنے مال کی بُہتات سے نذر کا چندہ ڈالا مگر اِس نے اپنی ناداری کی حالت میں جِتنی روزی اُس کے پاس تھی سب ڈال دی۔
یِسُوع ہَیکل کی بربادی کی پیشین گوئی کرتا ہے
(متّی ۲۴‏:۱‏-۲؛ مرقس ۱۳‏:۱‏-۲)
5اور جب بعض لوگ ہَیکل کی بابت کہہ رہے تھے کہ وہ نفِیس پتّھروں اور نذر کی ہُوئی چِیزوں سے آراستہ ہے تو اُس نے کہا۔ 6وہ دِن آئیں گے کہ اِن چِیزوں میں سے جو تُم دیکھتے ہو یہاں کِسی پتّھر پر پتّھر باقی نہ رہے گا جو گِرایا نہ جائے۔
مُصیِبتیں اور ایذائیں
(متّی ۲۴‏:۳‏-۱۴؛ مرقس ۱۳‏:۳‏-۱۳)
7اُنہوں نے اُس سے پُوچھا کہ اَے اُستاد! پِھر یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور جب وہ ہونے کو ہوں اُس وقت کا کیا نِشان ہے؟
8اُس نے کہا خبردار! گُمراہ نہ ہونا کیونکہ بُہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ وہ مَیں ہی ہُوں اور یہ بھی کہ وقت نزدِیک آ پُہنچا ہے۔ تُم اُن کے پِیچھے نہ چلے جانا۔ 9اور جب لڑائِیوں اور فسادوں کی افواہیں سُنو تو گھبرا نہ جانا کیونکہ اُن کا پہلے وَاقِع ہونا ضرُور ہے لیکن اُس وقت فوراً خاتِمہ نہ ہو گا۔
10پِھر اُس نے اُن سے کہا کہ قَوم پر قَوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی۔ 11اور بڑے بڑے بَھونچال آئیں گے اور جابجا کال اور مری پڑے گی اور آسمان پر بڑی بڑی دہشت ناک باتیں اور نِشانِیاں ظاہِر ہوں گی۔ 12لیکن اِن سب باتوں سے پہلے وہ میرے نام کے سبب سے تُمہیں پکڑیں گے اور ستائیں گے اور عِبادت خانوں کی عدالت کے حوالہ کریں گے اور قَیدخانوں میں ڈلوائیں گے اور بادشاہوں اور حاکِموں کے سامنے حاضِر کریں گے۔ 13اور یہ تُمہارا گواہی دینے کا مَوقع ہو گا۔ 14پس اپنے دِل میں ٹھان رکھّو کہ ہم پہلے سے فِکر نہ کریں گے کہ کیا جواب دیں۔ 15کیونکہ مَیں تُمہیں اَیسی زُبان اور حِکمت دُوں گا کہ تُمہارے کِسی مُخالِف کو سامنا کرنے یا خِلاف کہنے کا مقدُور نہ ہو گا۔ 16اور تُمہیں ماں باپ اور بھائی اور رِشتہ دار اور دوست بھی پکڑوائیں گے بلکہ وہ تُم میں سے بعض کو مَروا ڈالیں گے۔ 17اور میرے نام کے سبب سے سب لوگ تُم سے عداوت رکھّیں گے۔ 18لیکن تُمہارے سَر کا ایک بال بھی بِیکا نہ ہو گا۔ 19اپنے صبر سے تُم اپنی جانیں بچائے رکھّو گے۔
یِسُوع یروشلِیم کی بربادی کی پیشین گوئی کرتا ہے
(متّی ۲۴‏:۱۵‏-۲۱؛ مرقس ۱۳‏:۱۴‏-۱۹)
20پِھر جب تُم یرُوشلِیم کو فَوجوں سے گِھرا ہُؤا دیکھو تو جان لینا کہ اُس کا اُجڑ جانا نزدِیک ہے۔ 21اُس وقت جو یہُودیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں اور جو یروشلِیم کے اندر ہوں باہر نِکل جائیں اور جو دیہات میں ہوں شہر میں نہ جائیں۔ 22کیونکہ یہ اِنتِقام کے دِن ہوں گے جِن میں سب باتیں جو لِکھّی ہیں پُوری ہو جائیں گی۔ 23اُن پر افسوس ہے جو اُن دِنوں میں حامِلہ ہوں اور جو دُودھ پِلاتی ہوں! کیونکہ مُلک میں بڑی مُصیِبت اور اِس قَوم پر غضب ہو گا۔ 24اور وہ تلوار کا لُقمہ ہو جائیں گے اور اسِیر ہو کر سب قَوموں میں پُہنچائے جائیں گے اور جب تک غَیر قَوموں کی مِیعاد پُوری نہ ہو یروشلِیم غَیر قَوموں سے پامال ہوتا رہے گا۔
اِبنِ آدمؔ کی آمد
(متّی ۲۴‏:۲۹‏-۳۱؛ مرقس ۱۳‏:۲۴‏-۲۷)
25اور سُورج اور چاند اور سِتاروں میں نِشان ظاہِر ہوں گے اور زمِین پر قَوموں کو تکلِیف ہو گی کیونکہ وہ سمُندر اور اُس کی لہروں کے شور سے گھبرا جائیں گی۔ 26اور ڈر کے مارے اور زمِین پر آنے والی بلاؤں کی راہ دیکھتے دیکھتے لوگوں کی جان میں جان نہ رہے گی۔ اِس لِئے کہ آسمان کی قُوّتیں ہِلائی جائیں گی۔ 27اُس وقت لوگ اِبنِ آدمؔ کو قُدرت اور بڑے جلال کے ساتھ بادِل میں آتے دیکھیں گے۔ 28اور جب یہ باتیں ہونے لگیں تو سِیدھے ہو کر سر اُوپر اُٹھانا اِس لِئے کہ تُمہاری مَخلصی نزدِیک ہو گی۔
انجِیر کے درخت سے سبق
(متّی ۲۴‏:۳۲‏-۳۵؛ مرقس ۱۳‏:۲۸‏-۳۱)
29اور اُس نے اُن سے ایک تمثِیل کہی کہ انجِیر کے درخت اور سب درختوں کو دیکھو۔ 30جُونہی اُن میں کونپلیں نِکلتی ہیں تُم دیکھ کر آپ ہی جان لیتے ہو کہ اب گرمی نزدِیک ہے۔ 31اِسی طرح جب تُم اِن باتوں کو ہوتے دیکھو تو جان لو کہ خُدا کی بادشاہی نزدِیک ہے۔
32مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لِیں یہ نسل ہرگِز تمام نہ ہو گی۔ 33آسمان اور زمِین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگِز نہ ٹلیں گی۔
چوکس رہنے کی ضرُورت
34پس خبردار رہو۔ اَیسا نہ ہو کہ تُمہارے دِل خُمار اور نشہ بازی اور اِس زِندگی کی فِکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دِن تُم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔ 35کیونکہ جِتنے لوگ تمام رُویِ زمِین پر مَوجُود ہوں گے اُن سب پر وہ اِسی طرح آ پڑے گا۔ 36پس ہر وقت جاگتے اور دُعا کرتے رہو تاکہ تُم کو اِن سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور اِبنِ آدمؔ کے حضُور کھڑے ہونے کا مقدُور ہو۔
37اور وہ ہر روز ہَیکل میں تعلِیم دیتا تھا اور رات کو باہر جا کر اُس پہاڑ پر رہا کرتا تھا جو زَیتُوؔن کا کہلاتا ہے۔ 38اور صُبح سویرے سب لوگ اُس کی باتیں سُننے کو ہَیکل میں اُس کے پاس آیا کرتے تھے۔
یِسُوع کے خِلاف سازش
(متّی ۲۶‏:۱‏-۵؛ مرقس ۱۴‏:۱‏-۲؛ یُوحنّا ۱۱‏:۴۵‏-۵۳)
1اور عِیدِ فطِیر جِس کو عِیدِ فَسح کہتے ہیں نزدِیک تھی۔ 2اور سردار کاہِن اور فقِیہہ موقع ڈُھونڈ رہے تھے کہ اُسے کِس طرح مار ڈالیں کیونکہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔
یہُوداؔہ یِسُوع کو دھوکے سے پکڑوانے پر مُتفق ہوتا ہے
(متّی ۲۶‏:۱۴‏-۱۶؛ مرقس ۱۴‏:۱۰‏-۱۱)
3اور شَیطان یہُوداؔہ میں سمایا جو اِسکریوتی کہلاتا اور اُن بارہ میں شُمار کِیا جاتا تھا۔ 4اُس نے جا کر سردار کاہِنوں اور سِپاہیوں کے سرداروں سے مشورَہ کِیا کہ اُس کو کِس طرح اُن کے حوالہ کرے۔ 5وہ خُوش ہُوئے اور اُسے رُوپَے دینے کا اِقرار کِیا۔ 6اُس نے مان لِیا اور مَوقع ڈُھونڈنے لگا کہ اُسے بغَیر ہنگامہ اُن کے حوالہ کر دے۔
یِسُوع فَسح کا کھانا کھانے کی تیّاری کرتا ہے
(متّی ۲۶‏:۱۷‏-۲۵؛ مرقس ۱۴‏:۱۲‏-۲۱؛ یُوحنّا ۱۳‏:۲۱‏-۳۰)
7اور عِیدِ فطِیر کا دِن آیا جِس میں فَسح ذبح کرنا فرض تھا۔ 8اور یِسُوعؔ نے پطرؔس اور یُوحنّا کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جا کر ہمارے کھانے کے لِئے فَسح تیّار کرو۔
9اُنہوں نے اُس سے کہا تُو کہاں چاہتا ہے کہ ہم تیّار کریں؟
10اُس نے اُن سے کہا دیکھو شہر میں داخِل ہوتے ہی تُمہیں ایک آدمی پانی کا گھڑا لِئے ہُوئے مِلے گا۔ جِس گھر میں وہ جائے اُس کے پِیچھے چلے جانا۔ 11اور گھر کے مالِک سے کہنا کہ اُستاد تُجھ سے کہتا ہے وہ مہمان خانہ کہاں ہے جِس میں مَیں اپنے شاگِردوں کے ساتھ فَسح کھاؤں؟ 12وہ تُمہیں ایک بڑا بالاخانہ آراستہ کِیا ہُؤا دِکھائے گا۔ وہِیں تیّاری کرنا۔
13اُنہوں نے جا کر جَیسا اُس نے اُن سے کہا تھا وَیسا ہی پایا اور فَسح تیّار کِیا۔
عشائ رباّنی
(متّی ۲۶‏:۲۶‏-۳۰؛ مرقس ۱۴‏:۲۲‏-۲۶‏؛ ۱-کُرِنتھِیوں ۱۱‏:۲۳‏-۲۵)
14جب وقت ہو گیا تو وہ کھانا کھانے بَیٹھا اور رسُول اُس کے ساتھ بَیٹھے۔ 15اُس نے اُن سے کہا مُجھے بڑی آرزُو تھی کہ دُکھ سہنے سے پہلے یہ فَسح تُمہارے ساتھ کھاؤُں۔ 16کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اُسے کبھی نہ کھاؤُں گا جب تک وہ خُدا کی بادشاہی میں پُورا نہ ہو۔
17پِھر اُس نے پِیالہ لے کر شُکر کِیا اور کہا کہ اِس کو لے کر آپس میں بانٹ لو۔ 18کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ انگُور کا شِیرہ اب سے کبھی نہ پِیُوں گا جب تک خُدا کی بادشاہی نہ آ لے۔
19پِھر اُس نے روٹی لی اور شُکر کر کے توڑی اور یہ کہہ کر اُن کو دی کہ یہ میرا بدن ہے جو تُمہارے واسطے دِیا جاتا ہے۔ میری یادگاری کے لِئے یہی کِیا کرو۔ 20اور اِسی طرح کھانے کے بعد پِیالہ یہ کہہ کر دِیا کہ یہ پِیالہ میرے اُس خُون میں نیا عہد ہے جو تُمہارے واسطے بہایا جاتا ہے۔
21مگر دیکھو میرے پکڑوانے والے کا ہاتھ میرے ساتھ میز پر ہے۔ 22کیونکہ اِبنِ آدمؔ تو جَیسا اُس کے واسطے مُقرّر ہے جاتا ہی ہے مگر اُس شخص پر افسوس ہے جِس کے وسِیلہ سے وہ پکڑوایا جاتا ہے!
23اِس پر وہ آپس میں پُوچھنے لگے کہ ہم میں سے کَون ہے جو یہ کام کرے گا؟
بڑا ہونے پر بحث
24اور اُن میں یہ تکرار بھی ہُوئی کہ ہم میں سے کَون بڑا سمجھا جاتا ہے؟ 25اُس نے اُن سے کہا کہ غَیر قَوموں کے بادشاہ اُن پر حُکُومت چلاتے ہیں اور جو اُن پر اِختیار رکھتے ہیں خُداوندِ نِعمت کہلاتے ہیں۔ 26مگر تُم اَیسے نہ ہونا بلکہ جو تُم میں بڑا ہے وہ چھوٹے کی مانِند اور جو سردار ہے وہ خِدمت کرنے والے کی مانِند بنے۔ 27کیونکہ بڑا کَون ہے؟ وہ جو کھانا کھانے بَیٹھا یا وہ جو خِدمت کرتا ہے؟ کیا وہ نہیں جو کھانا کھانے بَیٹھا ہے؟ لیکن مَیں تُمہارے درمِیان خِدمت کرنے والے کی مانِند ہُوں۔
28مگر تُم وہ ہو جو میری آزمایشوں میں برابر میرے ساتھ رہے۔ 29اور جَیسے میرے باپ نے میرے لِئے ایک بادشاہی مُقرّر کی ہے مَیں بھی تُمہارے لِئے مُقرّر کرتا ہُوں۔ 30تاکہ میری بادشاہی میں میری میز پر کھاؤ پِیو بلکہ تُم تختوں پر بَیٹھ کر اِسرائیلؔ کے بارہ قبِیلوں کا اِنصاف کرو گے۔
یِسُوع پیشین گوئی کرتا ہے کہ پطرس میرا اِنکار کرے گا
(متّی ۲۶‏:۳۱‏-۳۵؛ مرقس ۱۴‏:۲۷‏-۳۱؛ یُوحنّا ۱۳‏:۳۶‏-۳۸)
31شمعُون! شمعُوؔن! دیکھ شَیطان نے تُم لوگوں کو مانگ لِیا تاکہ گیہُوں کی طرح پھٹکے۔ 32لیکن مَیں نے تیرے لِئے دُعا کی کہ تیرا اِیمان جاتا نہ رہے اور جب تُو رجُوع کرے تو اپنے بھائِیوں کو مضبُوط کرنا۔
33اُس نے اُس سے کہا اَے خُداوند! تیرے ساتھ مَیں قَید ہونے بلکہ مَرنے کو بھی تیّار ہُوں۔
34اُس نے کہا اَے پطرؔس مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ آج مُرغ بانگ نہ دے گا جب تک تُو تِین بار میرا اِنکار نہ کرے کہ مُجھے نہیں جانتا۔
بٹوا، جھولی اور تلوار
35پِھر اُس نے اُن سے کہا کہ جب مَیں نے تُمہیں بٹوے اور جھولی اور جُوتی بغَیر بھیجا تھا کیا تُم کِسی چِیز کے مُحتاج رہے تھے؟
اُنہوں نے کہا کِسی چِیز کے نہیں۔
36اُس نے اُن سے کہا مگر اب جِس کے پاس بٹوا ہو وہ اُسے لے اور اِسی طرح جھولی بھی اور جِس کے پاس نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر تلوار خرِیدے۔ 37کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ یہ جو لِکھا ہے کہ وہ بدکاروں میں گِنا گیا اُس کا میرے حق میں پُورا ہونا ضرُور ہے۔ اِس لِئے کہ جو کُچھ مُجھ سے نِسبت رکھتا ہے وہ پُورا ہونا ہے۔
38اُنہوں نے کہا اَے خُداوند! دیکھ یہاں دو تلواریں ہیں۔
اُس نے اُن سے کہا۔ بُہت ہیں۔
یِسُوع کوہِ زیتُون پر دُعا مانگتا ہے
(متّی ۲۶‏:۳۶‏-۴۶؛ مرقس ۱۴‏:۳۲‏-۴۲)
39پِھر وہ نِکل کر اپنے دستُور کے مُوافِق زَیتُوؔن کے پہاڑ کو گیا اور شاگِرد اُس کے پِیچھے ہو لِئے۔ 40اور اُس جگہ پُہنچ کر اُس نے اُن سے کہا دُعا کرو کہ آزمایش میں نہ پڑو۔
41اور وہ اُن سے بمُشکِل الگ ہو کر کوئی پتّھر کا ٹپّہ آگے بڑھا اور گُھٹنے ٹیک کر یُوں دُعا کرنے لگا کہ 42اَے باپ اگر تُو چاہے تو یہ پِیالہ مُجھ سے ہٹا لے تَو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پُوری ہو۔ 43اور آسمان سے ایک فرِشتہ اُس کو دِکھائی دِیا۔ وہ اُسے تقوِیت دیتا تھا۔ 44پِھر وہ سخت پریشانی میں مُبتلا ہو کر اَور بھی دِل سوزی سے دُعا کرنے لگا اور اُس کا پسِینہ گویا خُون کی بڑی بڑی بُوندیں ہو کر زمِین پر ٹپکتا تھا۔
45جب دُعا سے اُٹھ کر شاگِردوں کے پاس آیا تو اُنہیں غم کے مارے سوتے پایا۔ 46اور اُن سے کہا تُم سوتے کیوں ہو؟ اُٹھ کر دُعا کرو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔
یِسُوع کی گرِفتاری
(متّی ۲۶‏:۴۷‏-۵۶؛ مرقس ۱۴‏:۴۳‏-۵۰؛ یُوحنّا ۱۸‏:۳‏-۱۱)
47وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دیکھو ایک بِھیڑ آئی اور اُن بارہ میں سے وہ جِس کا نام یہُوداؔہ تھا اُن کے آگے آگے تھا۔ وہ یِسُوعؔ کے پاس آیا کہ اُس کا بوسہ لے۔ 48یِسُوعؔ نے اُس سے کہا اَے یہُوداؔہ کیا تُو بوسہ لے کر اِبنِ آدمؔ کو پکڑواتا ہے؟
49جب اُس کے ساتِھیوں نے معلُوم کِیا کہ کیا ہونے والا ہے تو کہا اَے خُداوند کیا ہم تلوار چلائیں؟ 50اور اُن میں سے ایک نے سردار کاہِن کے نَوکر پر چلا کر اُس کا دہنا کان اُڑا دِیا۔
51یِسُوعؔ نے جواب میں کہا اِتنے پر کِفایت کرو اور اُس کے کان کو چُھو کر اُس کو اچّھا کِیا۔
52پِھر یِسُوعؔ نے سردار کاہِنوں اور ہَیکل کے سرداروں اور بزُرگوں سے جو اُس پر چڑھ آئے تھے کہا کیا تُم مُجھے ڈاکُو جان کر تلواریں اور لاٹِھیاں لے کر نِکلے ہو؟ 53جب مَیں ہر روز ہَیکل میں تُمہارے ساتھ تھا تو تُم نے مُجھ پر ہاتھ نہ ڈالا لیکن یہ تُمہاری گھڑی اور تارِیکی کا اِختیار ہے۔
پطرس یِسُوع کا اِنکار کرتا ہے
(متّی ۲۶‏:۵۷‏-۵۸، ۶۹‏-۷۵؛ مرقس ۱۴‏:۵۳‏-۵۴، ۶۶‏-۷۲؛ یُوحنّا ۱۸‏:۱۲‏-۱۸، ۲۵‏-۲۷)
54پِھر وہ اُسے پکڑ کر لے چلے اور سردار کاہِن کے گھر میں لے گئے اور پطرؔس فاصِلہ پر اُس کے پِیچھے پِیچھے جاتا تھا۔ 55اور جب اُنہوں نے صحن کے بِیچ میں آگ جلائی اور مِل کر بَیٹھے تو پطرؔس اُن کے بِیچ میں بَیٹھ گیا۔ 56ایک لَونڈی نے اُسے آگ کی رَوشنی میں بَیٹھا ہُؤا دیکھ کر اُس پر خُوب نِگاہ کی اور کہا یہ بھی اُس کے ساتھ تھا۔
57مگر اُس نے یہ کہہ کر اِنکار کِیا کہ اَے عَورت مَیں اُسے نہیں جانتا۔
58تھوڑی دیر کے بعد کوئی اَور اُسے دیکھ کر کہنے لگا کہ تُو بھی اُن ہی میں سے ہے۔
پطرؔس نے کہا مِیاں مَیں نہیں ہُوں۔
59کوئی گھنٹے بھر کے بعد ایک اور شخص یقِینی طَور سے کہنے لگا کہ یہ آدمی بیشک اُس کے ساتھ تھا کیونکہ گلِیلی ہے۔
60پطرؔس نے کہا مِیاں مَیں نہیں جانتا تُو کیا کہتا ہے۔
وہ کہہ ہی رہا تھا کہ اُسی دَم مُرغ نے بانگ دی۔ 61اور خُداوند نے پِھر کر پطرؔس کی طرف دیکھا اور پطرؔس کو خُداوند کی وہ بات یاد آئی جو اُس سے کہی تھی کہ آج مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے تُو تِین بار میرا اِنکار کرے گا۔ 62اور وہ باہر جا کر زار زار رویا۔
سپاہی یِسُوع کو مارتے اور ٹھٹھّوں میں اُڑاتے ہیں
(متّی ۲۶‏:۶۷‏-۶۸؛ مرقس ۱۴‏:۶۵)
63اور جو آدمی یِسُوعؔ کو پکڑے ہُوئے تھے اُس کو ٹھٹّھوں میں اُڑاتے اور مارتے تھے۔ 64اور اُس کی آنکھیں بند کر کے اُس سے پُوچھتے تھے کہ نبُوّت سے بتا تُجھے کِس نے مارا؟ 65اور اُنہوں نے طعنہ سے اَور بھی بُہت سی باتیں اُس کے خِلاف کہِیں۔
یِسُوع کی صدرعدالت کے سامنے پیشی
(متّی ۲۶‏:۵۹‏-۶۶؛ مرقس ۱۴‏:۵۵‏-۶۴؛ یُوحنّا ۱۸‏:۱۹‏-۲۴)
66جب دِن ہُؤا تو سردار کاہِن اور فقِیہہ یعنی قَوم کے بزُرگوں کی مجلِس جمع ہُوئی اور اُنہوں نے اُسے اپنی صدرعدالت میں لے جا کر کہا۔ 67اگر تُو مسِیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔
اُس نے اُن سے کہا اگر مَیں تُم سے کہُوں تو یقِین نہ کرو گے۔ 68اور اگر پُوچُھوں تو جواب نہ دو گے۔ 69لیکن اب سے اِبنِ آدمؔ قادِرِ مُطلق خُدا کی دہنی طرف بَیٹھا رہے گا۔
70اِس پر اُن سب نے کہا پس کیا تُو خُدا کا بیٹا ہے؟
اُس نے اُن سے کہا تُم خُود کہتے ہو کیونکہ مَیں ہُوں۔
71اُنہوں نے کہا اب ہمیں گواہی کی کیا حاجت رہی؟ کیونکہ ہم نے خُود اُسی کے مُنہ سے سُن لِیا ہے۔
یِسُوع کی پِیلاطُسؔ کے سامنے پیشی
(متّی ۲۷‏:۱‏-۲؛ ۲۷‏:۱۱‏-۱۴؛ مرقس ۱۵‏:۱‏-۵؛ یُوحنّا ۱۸‏:۲۸‏-۳۸)
1پِھر اُن کی ساری جماعت اُٹھ کر اُسے پِیلاطُسؔ کے پاس لے گئی۔ 2اور اُنہوں نے اُس پر اِلزام لگانا شرُوع کِیا کہ اِسے ہم نے اپنی قَوم کو بہکاتے اور قَیصر کو خراج دینے سے منع کرتے اور اپنے آپ کو مسِیح بادشاہ کہتے پایا۔
3پِیلاطُسؔ نے اُس سے پُوچھا کیا تُو یہُودِیوں کا بادشاہ ہے؟
اُس نے اُس کے جواب میں کہا تُو خُود کہتا ہے۔
4پِیلاطُسؔ نے سردار کاہِنوں اور عام لوگوں سے کہا مَیں اِس شخص میں کُچھ قصُور نہیں پاتا۔
5مگر وہ اَور بھی زور دے کر کہنے لگے کہ یہ تمام یہُودیہ میں بلکہ گلِیل سے لے کر یہاں تک لوگوں کو سِکھا سِکھا کر اُبھارتا ہے۔
یِسُوع کو ہیرودیس کے پاس بھیجا جاتا ہے
6یہ سُن کر پِیلاطُسؔ نے پُوچھا کیا یہ آدمی گلِیلی ہے؟ 7اور یہ معلُوم کر کے کہ ہیرودؔیس کی عمل داری کا ہے اُسے ہیرودؔیس کے پاس بھیجا کیونکہ وہ بھی اُن دِنوں یروشلِیم میں تھا۔ 8ہیرودؔیس یِسُوعؔ کو دیکھ کر بُہت خُوش ہُؤا کیونکہ وہ مُدّت سے اُسے دیکھنے کا مُشتاق تھا۔ اِس لِئے کہ اُس نے اُس کا حال سُنا تھا اور اُس کا کوئی مُعجِزہ دیکھنے کا اُمیدوار تھا۔ 9اور وہ اُس سے بُہتیری باتیں پُوچھتا رہا مگر اُس نے اُسے کُچھ جواب نہ دِیا۔ 10اور سردار کاہِن اور فقِیہہ کھڑے ہُوئے زور شور سے اُس پر اِلزام لگاتے رہے۔ 11پِھر ہیرودؔیس نے اپنے سِپاہیوں سمیت اُسے ذلِیل کِیا اور ٹھٹّھوں میں اُڑایا اور چمک دار پوشاک پہنا کر اُس کو پِیلاطُسؔ کے پاس واپس بھیجا۔ 12اور اُسی دِن ہیرودؔیس اور پِیلاطُسؔ آپس میں دوست ہو گئے کیونکہ پہلے اُن میں دُشمنی تھی۔
یِسُوع کو سزائے مَوت سُنائی جاتی ہے
(متّی ۲۷‏:۱۵‏-۲۶؛ مرقس ۱۵‏:۶‏-۱۵؛ یُوحنّا ۱۸‏:۳۹‏—۱۹‏:۱۶)
13پِھر پِیلاطُسؔ نے سردار کاہِنوں اور سرداروں اور عام لوگوں کو جمع کر کے۔ 14اُن سے کہا کہ تُم اِس شخص کو لوگوں کا بہکانے والا ٹھہرا کر میرے پاس لائے ہو اور دیکھو مَیں نے تُمہارے سامنے ہی اُس کی تحقِیقات کی مگر جِن باتوں کا اِلزام تُم اُس پر لگاتے ہو اُن کی نِسبت نہ مَیں نے اُس میں کُچھ قصُور پایا۔ 15نہ ہیرودؔیس نے کیونکہ اُس نے اُسے ہمارے پاس واپس بھیجا ہے اور دیکھو اُس سے کوئی اَیسا فِعل سرزد نہیں ہُؤا جِس سے وہ قتل کے لائِق ٹھہرتا۔ 16پس مَیں اُس کو پِٹوا کر چھوڑے دیتا ہُوں۔ 17(اُسے ہر عِید میں ضرُور تھا کہ کِسی کو اُن کی خاطِر چھوڑ دے)۔
18وہ سب مِل کر چِلاّ اُٹھے کہ اِسے لے جا اور ہماری خاطِر براؔبّا کو چھوڑ دے۔ 19(یہ کِسی بغاوت کے باعِث جو شہر میں ہُوئی تھی اور خُون کرنے کے سبب سے قَید میں ڈالا گیا تھا)۔
20مگر پِیلاطُسؔ نے یِسُوعؔ کو چھوڑنے کے اِرادہ سے پِھر اُن سے کہا۔ 21لیکن وہ چِلاّ کر کہنے لگے کہ اِس کو مصلُوب کر مصلُوب!
22اُس نے تِیسری بار اُن سے کہا کیوں؟ اِس نے کیا بُرائی کی ہے؟ مَیں نے اِس میں قتل کی کوئی وجہ نہیں پائی۔ پس مَیں اِسے پِٹوا کر چھوڑے دیتا ہُوں۔ 23مگر وہ چِلاّ چِلاّ کر سر ہوتے رہے کہ وہ مصلُوب کِیا جائے اور اُن کا چِلاّنا کار گر ہُؤا۔ 24پس پِیلاطُسؔ نے حُکم دِیا کہ اُن کی درخواست کے مُوافِق ہو۔ 25اور جو شخص بغاوت اور خُون کرنے کے سبب سے قَید میں پڑا تھا اور جِسے اُنہوں نے مانگا تھا اُسے چھوڑ دِیا مگر یِسُوعؔ کو اُن کی مرضی کے مُوافِق سِپاہیوں کے حوالہ کِیا۔
یِسُوع کو مصلُوب کِیا جاتا ہے
(متّی ۲۷‏:۳۲‏-۴۴؛ مرقس ۱۵‏:۲۱‏-۲۳؛ یُوحنّا ۱۹‏:۱۷‏-۲۷)
26اور جب اُس کو لِئے جاتے تھے تو اُنہوں نے شمعُوؔن نام ایک کُرینی کو جو دیہات سے آتا تھا پکڑ کر صلِیب اُس پر لا دی کہ یِسُوعؔ کے پِیچھے پِیچھے لے چلے۔
27اور لوگوں کی ایک بڑی بِھیڑ اور بُہت سی عَورتیں جو اُس کے واسطے روتی پِیٹتی تِھیں اُس کے پِیچھے پِیچھے چلِیں۔ 28یِسُوعؔ نے اُن کی طرف پِھر کر کہا اَے یروشلِیم کی بیٹِیو! میرے لِئے نہ رو بلکہ اپنے اور اپنے بچّوں کے لِئے رو۔ 29کیونکہ دیکھو وہ دِن آتے ہیں جِن میں کہیں گے مُبارک ہیں بانجھیں اور وہ رحِم جو باروَر نہ ہُوئے اور وہ چھاتِیاں جِنہوں نے دُودھ نہ پِلایا۔ 30اُس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شرُوع کریں گے کہ ہم پر گِر پڑو اور ٹِیلوں سے کہ ہمیں چِھپا لو۔ 31کیونکہ جب ہرے درخت کے ساتھ اَیسا کرتے ہیں تو سُوکھے کے ساتھ کیا کُچھ نہ کِیا جائے گا؟
32اور وہ دو اَور آدمِیوں کو بھی جو بدکار تھے لِئے جاتے تھے کہ اُس کے ساتھ قتل کِئے جائیں۔ 33جب وہ اُس جگہ پر پُہنچے جِسے کھوپڑی کہتے ہیں تو وہاں اُسے مصلُوب کِیا اور بدکاروں کو بھی ایک کو دہنی اور دُوسرے کو بائِیں طرف۔ 34یِسُوعؔ نے کہا اَے باپ! اِن کو مُعاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔
اور اُنہوں نے اُس کے کپڑوں کے حِصّے کِئے اور اُن پر قُرعہ ڈالا۔ 35اور لوگ کھڑے دیکھ رہے تھے اور سردار بھی ٹھٹّھے مار مار کر کہتے تھے کہ اِس نے اَوروں کو بچایا۔ اگر یہ خُدا کا مسِیح اور اُس کا برگُزِیدہ ہے تو اپنے آپ کو بچائے۔
36سِپاہیوں نے بھی پاس آ کر اور سِرکہ پیش کر کے اُس پر ٹھٹّھا مارا اور کہا کہ 37اگر تُو یہُودِیوں کا بادشاہ ہے تو اپنے آپ کو بچا۔
38اور ایک نوِشتہ بھی اُس کے اُوپر لگایا گیا تھا کہ یہ یہُودِیوں کا بادشاہ ہے۔
39پِھر جو بدکار صلِیب پر لٹکائے گئے تھے اُن میں سے ایک اُسے یُوں طعنہ دینے لگا کہ کیا تُو مسِیح نہیں؟ تُو اپنے آپ کو اور ہم کو بچا۔
40مگر دُوسرے نے اُسے جِھڑک کر جواب دِیا کہ کیا تُو خُدا سے بھی نہیں ڈرتا حالانکہ اُسی سزا میں گرِفتار ہے؟ 41اور ہماری سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپنے کاموں کا بدلہ پا رہے ہیں لیکن اِس نے کوئی بے جا کام نہیں کِیا۔ 42پِھر اُس نے کہا اَے یِسُوعؔ جب تُو اپنی بادشاہی میں آئے تو مُجھے یاد کرنا۔
43اُس نے اُس سے کہا مَیں تُجھ سے سچ کہتا ہُوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فِردَوس میں ہو گا۔
یِسُوع کی مَوت
(متّی ۲۷‏:۴۵‏-۵۶؛ مرقس ۱۵‏:۳۳‏-۴۱؛ یُوحنّا ۱۹‏:۲۸‏-۳۰)
44پِھر دوپہر کے قرِیب سے تِیسرے پہر تک تمام مُلک میں اندھیرا چھایا رہا۔ 45اور سُورج کی رَوشنی جاتی رہی اور مَقدِس کا پردہ بِیچ سے پھٹ گیا۔ 46پِھر یِسُوعؔ نے بڑی آواز سے پُکار کر کہا اَے باپ! مَیں اپنی رُوح تیرے ہاتھوں میں سَونپتا ہُوں اور یہ کہہ کر دَم دے دِیا۔
47یہ ماجرا دیکھ کر صُوبہ دار نے خُدا کی تمجِید کی اور کہا بیشک یہ آدمی راست باز تھا۔
48اور جِتنے لوگ اِس نظّارہ کو آئے تھے یہ ماجرا دیکھ کر چھاتی پِیٹتے ہُوئے لَوٹ گئے۔ 49اور اُس کے سب جان پہچان اور وہ عَورتیں جو گلِیل سے اُس کے ساتھ آئی تِھیں دُور کھڑی یہ باتیں دیکھ رہی تِھیں۔
یِسُوع کی تدفین
(متّی ۲۷‏:۵۷‏-۶۱؛ مرقس ۱۵‏:۴۲‏-۴۷؛ یُوحنّا ۱۹‏:۳۸‏-۴۲)
50اور دیکھو یُوسفؔ نام ایک شخص مُشِیر تھا جو نیک اور راست باز آدمی تھا۔ 51اور اُن کی صلاح اور کام سے رضامند نہ تھا۔ یہ یہُودِیوں کے شہر اَرِمَتیہ کا باشِندہ اور خُدا کی بادشاہی کا مُنتظِر تھا۔ 52اُس نے پِیلاطُسؔ کے پاس جا کر یِسُوعؔ کی لاش مانگی۔ 53اور اُس کو اُتار کر مہِین چادر میں لپیٹا۔ پِھر ایک قَبر کے اندر رکھ دِیا جو چٹان میں کُھدی ہُوئی تھی اور اُس میں کوئی کبھی رکھا نہ گیا تھا۔ 54وہ تیّاری کا دِن تھا اور سبت کا دِن شرُوع ہونے کو تھا۔
55اور اُن عَورتوں نے جو اُس کے ساتھ گلِیل سے آئی تِھیں پِیچھے پِیچھے جا کر اُس قَبر کو دیکھا اور یہ بھی کہ اُس کی لاش کِس طرح رکھّی گئی۔ 56اور لَوٹ کر خُوشبُودار چِیزیں اور عِطر تیّار کِیا۔
یِسُوع کا جی اُٹھنا
(متّی ۲۸‏:۱‏-۱۰؛ مرقس ۱۶‏:۱‏-۸؛ یُوحنّا ۲۰‏:۱‏-۱۰)
1سَبت کے دِن تو اُنہوں نے حُکم کے مُطابِق آرام کِیا۔ لیکن ہفتہ کے پہلے دِن وہ صُبح سویرے ہی اُن خُوشبُودار چِیزوں کو جو تیّار کی تِھیں لے کر قبر پر آئِیں۔ 2اور پتّھر کو قبر پر سے لُڑھکا ہُؤا پایا۔ 3مگر اندر جا کر خُداوند یِسُوعؔ کی لاش نہ پائی۔ 4اور اَیسا ہُؤا کہ جب وہ اِس بات سے حَیران تِھیں تو دیکھو دو شخص برّاق پوشاک پہنے اُن کے پاس آ کھڑے ہُوئے۔ 5جب وہ ڈر گئِیں اور اپنے سر زمِین پر جُھکائے تو اُنہوں نے اُن سے کہا کہ زِندہ کو مُردوں میں کیوں ڈُھونڈتی ہو؟ 6وہ یہاں نہیں بلکہ جی اُٹھا ہے۔ یاد کرو کہ جب وہ گلِیل میں تھا تو اُس نے تُم سے کہا تھا۔ 7ضرُور ہے کہ اِبنِ آدمؔ گُنہگاروں کے ہاتھ میں حوالہ کِیا جائے اور مصلُوب ہو اور تِیسرے دِن جی اُٹھے۔
8اُس کی باتیں اُنہیں یاد آئِیں۔ 9اور قبر سے لَوٹ کر اُنہوں نے اُن گیارہ اور باقی سب لوگوں کو اِن سب باتوں کی خبر دی۔ 10جِنہوں نے رسُولوں سے یہ باتیں کہِیں وہ مریمؔ مگدلینی اور یوؔأنہ اور یعقُوب کی ماں مریمؔ اور اُن کے ساتھ کی باقی عَورتیں تِھیں۔ 11مگر یہ باتیں اُنہیں کہانی سی معلُوم ہُوئِیں اور اُنہوں نے اُن کا یقِین نہ کِیا۔ 12اِس پر پطرؔس اُٹھ کر قبر تک دَوڑا گیا اور جُھک کر نظر کی اور دیکھا کہ صِرف کفن ہی کفن ہے اور اِس ماجرے سے تعجُّب کرتا ہُؤا اپنے گھر چلا گیا۔
اِمّاؔؤُس کی راہ پر
(مرقس ۱۶‏:۱۲‏-۱۳)
13اور دیکھو اُسی دِن اُن میں سے دو آدمی اُس گاؤں کی طرف جا رہے تھے جِس کا نام اِمّاؤُس ہے۔ وہ یروشلِیم سے قرِیباً سات مِیل کے فاصِلہ پر ہے۔ 14اور وہ اِن سب باتوں کی بابت جو واقِع ہُوئی تِھیں آپس میں بات چِیت کرتے جاتے تھے۔ 15جب وہ بات چِیت اور پُوچھ پاچھ کر رہے تھے تو اَیسا ہُؤا کہ یِسُوعؔ آپ نزدِیک آ کر اُن کے ساتھ ہو لِیا۔ 16لیکن اُن کی آنکھیں بند کی گئی تِھیں کہ اُس کو نہ پہچانیں۔ 17اُس نے اُن سے کہا یہ کیا باتیں ہیں جو تُم چلتے چلتے آپس میں کرتے ہو؟
وہ غمگِین سے کھڑے ہو گئے۔ 18پِھر ایک نے جِس کا نام کلِیُپاؔس تھا جواب میں اُس سے کہا کیا تُو یروشلِیم میں اکیلا مُسافِر ہے جو نہیں جانتا کہ اِن دِنوں اُس میں کیا کیا ہُؤا ہے؟
19اُس نے اُن سے کہا کیا ہُؤا ہے؟
اُنہوں نے اُس سے کہا یِسُوعؔ ناصری کا ماجرا جو خُدا اور ساری اُمّت کے نزدِیک کام اور کلام میں قُدرت والا نبی تھا۔ 20اور سردار کاہِنوں اور ہمارے حاکِموں نے اُس کو پکڑوا دِیا تاکہ اُس پر قتل کا حُکم دِیا جائے اور اُسے مصلُوب کِیا۔ 21لیکن ہم کو اُمّید تھی کہ اِسرائیلؔ کو مُخلصی یِہی دے گا اور علاوہ اِن سب باتوں کے اِس ماجرے کو آج تِیسرا دِن ہو گیا۔ 22اور ہم میں سے چند عَورتوں نے بھی ہم کو حَیران کر دِیا ہے جو سویرے ہی قبر پر گئی تِھیں۔ 23اور جب اُس کی لاش نہ پائی تو یہ کہتی ہُوئی آئِیں کہ ہم نے رویا میں فرِشتوں کو بھی دیکھا۔ اُنہوں نے کہا وہ زِندہ ہے۔ 24اور بعض ہمارے ساتِھیوں میں سے قبر پر گئے اور جَیسا عَورتوں نے کہا تھا وَیسا ہی پایا مگر اُس کو نہ دیکھا۔
25اُس نے اُن سے کہا اَے نادانو اور نبِیوں کی سب باتوں کے ماننے میں سُست اِعتقادو! 26کیا مسِیح کو یہ دُکھ اُٹھا کر اپنے جلال میں داخِل ہونا ضرُور نہ تھا؟ 27پِھر مُوسیٰ سے اور سب نبِیوں سے شرُوع کر کے سب نوِشتوں میں جِتنی باتیں اُس کے حق میں لِکھی ہُوئی ہیں وہ اُن کو سمجھا دِیں۔
28اِتنے میں وہ اُس گاؤں کے نزدِیک پُہنچ گئے جہاں جاتے تھے اور اُس کے ڈھنگ سے اَیسا معلُوم ہُؤا کہ وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ 29اُنہوں نے اُسے یہ کہہ کر مجبُور کِیا کہ ہمارے ساتھ رہ کیونکہ شام ہُؤا چاہتی ہے اور دِن اب بُہت ڈھل گیا۔ پس وہ اندر گیا تاکہ اُن کے ساتھ رہے۔ 30جب وہ اُن کے ساتھ کھانا کھانے بَیٹھا تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے روٹی لے کر برکت دی اور توڑ کر اُن کو دینے لگا۔ 31اِس پر اُن کی آنکھیں کُھل گئِیں اور اُنہوں نے اُس کو پہچان لِیا اور وہ اُن کی نظر سے غائِب ہو گیا۔ 32اُنہوں نے آپس میں کہا کہ جب وہ راہ میں ہم سے باتیں کرتا اور ہم پر نوِشتوں کا بھید کھولتا تھا تو کیا ہمارے دِل جوش سے نہ بھر گئے تھے؟
33پس وہ اُسی گھڑی اُٹھ کر یروشلِیم کو لَوٹ گئے اور اُن گیارہ اور اُن کے ساتِھیوں کو اِکٹّھا پایا۔ 34وہ کہہ رہے تھے کہ خُداوند بیشک جی اُٹھا اور شمعُوؔن کو دِکھائی دِیا ہے۔
35اور اُنہوں نے راہ کا حال بیان کِیا اور یہ بھی کہ اُسے روٹی توڑتے وقت کِس طرح پہچانا۔
یِسُوع اپنے شاگِردوں پر ظاہر ہوتا ہے
(متّی ۲۸‏:۱۶‏-۲۰؛ مرقس ۱۶‏:۱۴‏-۱۸؛ یُوحنّا ۲۰‏:۱۹‏-۲۳؛ اَعمال ۱‏:۶‏-۸)
36وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ یِسُوعؔ آپ اُن کے بِیچ میں آ کھڑا ہُؤا اور اُن سے کہا تُمہاری سلامتی ہو۔
37مگر اُنہوں نے گھبرا کر اور خَوف کھا کر یہ سمجھا کہ کِسی رُوح کو دیکھتے ہیں۔ 38اُس نے اُن سے کہا تُم کیوں گھبراتے ہو؟ اور کِس واسطے تُمہارے دِل میں شک پَیدا ہوتے ہیں؟ 39میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ مَیں ہی ہُوں۔ مُجھے چُھو کر دیکھو کیونکہ رُوح کے گوشت اور ہڈّی نہیں ہوتی جَیسا مُجھ میں دیکھتے ہو۔
40اور یہ کہہ کر اُس نے اُنہیں اپنے ہاتھ اور پاؤں دِکھائے۔ 41جب مارے خُوشی کے اُن کو یقِین نہ آیا اور تعجُّب کرتے تھے تو اُس نے اُن سے کہا کیا یہاں تُمہارے پاس کُچھ کھانے کو ہے؟ 42اُنہوں نے اُسے بُھنی ہُوئی مچھلی کا قتلہ دِیا۔ 43اُس نے لے کر اُن کے رُوبرُو کھایا۔
44پِھر اُس نے اُن سے کہا یہ میری وہ باتیں ہیں جو مَیں نے تُم سے اُس وقت کہی تِھیں جب تُمہارے ساتھ تھا کہ ضرُور ہے کہ جِتنی باتیں مُوسیٰ کی تَورَیت اور نبِیوں کے صحِیفوں اور زبُور میں میری بابت لِکھی ہیں پُوری ہوں۔
45پِھر اُس نے اُن کا ذِہن کھولا تاکہ کِتابِ مُقدّس کو سمجھیں۔ 46اور اُن سے کہا یُوں لِکھا ہے کہ مسِیح دُکھ اُٹھائے گا اور تِیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ 47اور یروشلِیم سے شرُوع کر کے سب قَوموں میں تَوبہ اور گُناہوں کی مُعافی کی مُنادی اُس کے نام سے کی جائے گی۔ 48تُم اِن باتوں کے گواہ ہو۔ 49اور دیکھو جِس کا میرے باپ نے وعدہ کِیا ہے مَیں اُس کو تُم پر نازِل کرُوں گا لیکن جب تک عالَمِ بالا سے تُم کو قُوّت کا لِباس نہ مِلے اِس شہر میں ٹھہرے رہو۔
یِسُوع آسمان پر اُٹھایا جاتا ہے
(مرقس ۱۶‏:۱۹‏-۲۰؛ اَعمال ۱‏:۹‏-۱۱)
50پِھر وہ اُنہیں بَیت عَؔنِیّاہ کے سامنے تک باہر لے گیا اور اپنے ہاتھ اُٹھا کر اُنہیں برکت دی۔ 51جب وہ اُنہیں برکت دے رہا تھا تو اَیسا ہُؤا کہ اُن سے جُدا ہو گیا اور آسمان پر اُٹھایا گیا۔ 52اور وہ اُس کو سِجدہ کر کے بڑی خُوشی سے یروشلِیم کو لَوٹ گئے۔ 53اور ہر وقت ہَیکل میں حاضِر ہو کر خُدا کی حمد کِیا کرتے تھے۔