Calvary Pentecostal Theological Seminary Pakistan

Urdu Bible

Home Churches Seminary The Bible Books Prayer Request About Us Contact Us

غزلُ الغزلات


1سُلیماؔن کی غزلُ الغزلات۔
پہلی غزل
عَورت کا خطاب
2وہ اپنے مُنہ کے چُوموں سے مُجھے چُومے
کیونکہ تیرا عِشق مَے سے بِہتر ہے۔
3تیرے عِطر کی خُوشبُو لطِیف ہے۔
تیرا نام عِطر ریختہ ہے۔
اِسی لِئے کُنواریاں تُجھ پر عاشِق ہیں۔
4مُجھے کھینچ لے۔ ہم تیرے پِیچھے دَوڑیں گی۔
بادشاہ مُجھے اپنے محلّ میں لے آیا۔
ہم تُجھ میں شادمان اور مسرُور ہوں گی۔
ہم تیرے عِشق کا تذکرہ مَے سے زِیادہ کریں گی۔
وہ سچّے دِل سے تُجھ پر عاشِق ہیں۔
5اَے یروشلِیم کی بیٹیو!
مَیں سِیاہ فام لیکن خُوب صُورت ہُوں۔
قِیدار کے خَیموں
اور سُلیماؔن کے پردوں کی مانِند۔
6مُجھے مت تاکو کہ مَیں سِیاہ فام ہُوں
کیونکہ مَیں دُھوپ کی جلی ہُوں۔
میری ماں کے بیٹے مُجھ سے ناخُوش تھے۔
اُنہوں نے مُجھ سے تاکِستانوں کی نِگہبانی کرائی
لیکن مَیں نے اپنے تاکِستان کی نِگہبانی نہیں کی۔
7اَے میری جان کے پِیارے! مُجھے بتا۔
تُو اپنے گلّہ کو کہاں چَراتا ہے
اور دوپہر کے وقت کہاں بِٹھاتا ہے
کیونکہ مَیں تیرے رفِیقوں کے گلّوں کے پاس
کیوں ماری ماری پِھرُوں؟
مَرد کا خطاب
8اَے عَورتوں میں سب سے جمِیلہ! اگر تُو نہیں جانتی
تو گلّہ کے نقشِ قدم پر چلی جا
اور اپنے بُزغالوں کو چرواہوں کے خَیموں کے پاس پاس چَرا۔
9اَے میری پیاری!
مَیں نے تُجھے فرِعونؔ کے رتھ کی گھوڑیوں میں سے ایک کے ساتھ تشبِیہ دی ہے۔
10تیرے گال مُسلسل زُلفوں میں خُوش نُماہیں
اور تیری گردن موتِیوں کے ہاروں میں۔
11ہم تیرے لِئے سونے کے طَوق بنائیں گے۔
اور اُن میں چاندی کے پُھول جڑیں گے۔
عَورت کا خطاب
12جب تک بادشاہ تناوُل فرماتا رہا
میرے سُنبُل کی مہک اُڑتی رہی۔
13میرا محبُوب میرے لِئے دستۂِ مُر ہے
جو رات بھر میری چھاتِیوں کے درمِیان پڑا رہتا ہے۔
14میرا محبُوب میرے لِئے عین جدّؔی کے انگُورِستان سے
مہندی کے پُھولوں کا گُچھّا ہے۔
مَرد کا خطاب
15دیکھ تُو خُوبرُو ہے اَے میری پِیاری! دیکھ تُو خُوب صُورت ہے۔
تیری آنکھیں دو کبُوتر ہیں۔
عَورت کا خطاب
16دیکھ تُو ہی خُوب صُورت ہے اَے میرے محبُوب!
بلکہ مرغُوبِ خاطِر ہے۔
ہمارا پلنگ بھی سبز ہے۔
17ہمارے گھر کے شہتِیر دیودار کے
اور ہماری کڑِیاں صنوبر کی ہیں۔
1مَیں شاروؔن کی نرگِس
اور وادِیوں کی سوسن ہُوں۔
مَرد کا خطاب
2جَیسی سوسن جھاڑِیوں میں
وَیسی ہی میری محبُوبہ کُنوارِیوں میں ہے۔
عَورت کا خطاب
3جَیسا سیب کا درخت بَن کے درختوں میں
وَیسا ہی میرا محبُوب نَوجوانوں میں ہے۔
مَیں نِہایت شادمانی سے اُس کے سایہ میں بَیٹھی
اور اُس کا پَھل میرے مُنہ میں مِیٹھا لگا۔
4وہ مُجھے مَے خانہ کے اندر لایا
اور اُس کی مُحبّت کا جھنڈا میرے اُوپر تھا۔
5کِشمِش سے مُجھے قرار دو۔ سیبوں سے مُجھے تازہ دَم کرو
کیونکہ مَیں عِشق کی بِیمار ہُوں۔
6اُس کا بایاں ہاتھ میرے سر کے نِیچے ہے
اور اُس کا دہنا ہاتھ مُجھے گلے سے لگاتا ہے۔
7اَے یروشلِیم کی بیٹیو!
مَیں تُم کو غزالوں اور مَیدان کی ہرنِیوں کی قَسم دیتی ہُوں
کہ تُم میرے پِیارے کو نہ جگاؤ نہ اُٹھاؤ
جب تک کہ وہ اُٹھنا نہ چاہے۔
دُوسری غزل
عَورت کا خطاب
8میرے محبُوب کی آواز! دیکھ وہ آ رہا ہے!
پہاڑوں پر سے کُودتا اور ٹِیلوں پر سے پھاندتا ہُؤا چلا آتا ہے۔
9میرا محبُوب آہُو یا جوان ہرن کی مانِند ہے۔
دیکھ وہ ہماری دِیوار کے پِیچھے کھڑا ہے۔
وہ کِھڑکِیوں سے جھانکتا ہے۔
وہ جھنجریوں سے تاکتا ہے۔
10میرے محبُوب نے مُجھ سے باتیں کِیں اور کہا
مَرد کا خطاب
اُٹھ میری پِیاری! میری نازنِین! چلی آ۔
11کیونکہ دیکھ جاڑا گُذر گیا۔
مِینہ برس چُکا اور نِکل گیا۔
12زمِین پر پُھولوں کی بہار ہے۔
پرِندوں کے چہچہانے کا وقت آ پُہنچا۔
اور ہماری سرزمِین میں قُمریوں کی آواز سُنائی دینے لگی۔
13انجِیر کے درختوں میں ہرے انجِیر پکنے لگے۔
اور تاکیں پُھولنے لگِیں۔
اُن کی مہک پَھیل رہی ہے۔
سو اُٹھ میری پِیاری! میری جمِیلہ! چلی آ۔
14اَے میری کبُوتری جو چٹانوں کے دراڑوں میں
اور کڑاڑوں کی آڑ میں چِھپی ہے!
مُجھے اپنا چِہرہ دِکھا۔ مُجھے اپنی آواز سُنا
کیونکہ تُو ماہ جبِین اور تیری آواز شِیرِین ہے۔
15ہمارے لِئے لَومڑیوں کو پکڑو۔ اُن لَومڑی بچّوں کو
جو تاکِستان خراب کرتے ہیں
کیونکہ ہماری تاکوں میں پُھول لگے ہیں۔
عَورت کا خطاب
16میرا محبُوب میرا ہے اور مَیں اُس کی ہُوں۔
وہ سوسنوں کے درمِیان چَراتا ہے۔
17جب تک دِن ڈھلے اور سایہ بڑھے
تُو پِھر آ اَے میرے محبُوب! تُو غزال یا جوان ہرن کی طرح ہو کر آ
جو باتر کے پہاڑوں پر ہے۔
1مَیں نے رات کو اپنے پلنگ پر اُسے ڈُھونڈا جو میری جان کا پِیارا ہے۔
مَیں نے اُسے ڈُھونڈا پر نہ پایا۔
2اب مَیں اُٹھوں گی اور شہر میں پِھرُوں گی۔
کُوچوں میں اور بازاروں میں
اُس کو ڈھُونڈُوں گی جو میری جان کا پِیارا ہے۔
مَیں نے اُسے ڈھُونڈا پر نہ پایا۔
3پہرے والے جو شہر میں پِھرتے ہیں مُجھے مِلے۔
مَیں نے پُوچھا کیا تُم نے اُسے دیکھا جو میری جان کا پِیارا ہے؟
4ابھی مَیں اُن سے تھوڑا ہی آگے بڑھی تھی
کہ میری جان کا پِیارا مُجھے مِل گیا۔
مَیں نے اُسے پکڑ رکھّا اور اُسے نہ چھوڑا
جب تک کہ مَیں اُسے اپنی ماں کے گھر میں
اور اپنی والدِہ کے خَلوت خانہ میں نہ لے گئی۔
5اَے یروشلِیم کی بیٹیو!
مَیں تُم کو غزالوں اور مَیدان کی ہرنِیوں کی قَسم دیتی ہُوں
کہ تُم میرے پِیارے کو نہ جگاؤ نہ اُٹھاؤ
جب تک کہ وہ اُٹھنا نہ چاہے۔
تِیسری غزل
عَورت کا خطاب
6یہ کَون ہے جو مُر اور لُبان سے
اور سَوداگروں کے تمام عِطروں سے مُعطّر ہو کر
بیابان سے دُھوئیں کے سُتُون کی مانِند چلا آتا ہے؟
7دیکھو یہ سُلیماؔن کی پالکی ہے۔
جِس کے ساتھ اِسرائیلی بہادُروں میں سے
ساٹھ پہلوان ہیں۔
8وہ سب کے سب شمشِیر زن اور جنگ میں ماہِر ہیں۔
رات کے خطرہ کے سبب سے
ہر ایک کی تلوار اُس کی ران پر لٹک رہی ہے۔
9سُلیماؔن بادشاہ نے لُبناؔن کی لکڑِیوں سے
اپنے لِئے ایک پالکی بنوائی۔
10اُس کے ڈنڈے چاندی کے بنوائے۔
اُس کی نشِست سونے کی اور گدّی ارغوانی بنوائی
اور اُس کے اندر کا فرش
یروشلِیم کی بیٹِیوں نے عِشق سے مُرصّع کِیا۔
11اَے صِیُّون کی بیٹیو! باہر نِکلو اور سُلیماؔن بادشاہ کو دیکھو۔
اُس تاج کے ساتھ جو اُس کی ماں نے اُس کے بیاہ کے دِن
اور اُس کے دِل کی شادمانی کے روز اُس کے سر پر رکھّا۔
مَرد کا خطاب
1دیکھ تُو خُوبرُو ہے اَے میری پِیاری! دیکھ تُو خُوب صُورت ہے۔
تیری آنکھیں تیرے نِقاب کے نِیچے دو کبُوتر ہیں۔
تیرے بال بکریوں کے گلّہ کی مانِند ہیں
جو کوہِ جِلعاد پر بَیٹھی ہوں۔
2تیرے دانت بھیڑوں کے گلّہ کی مانِند ہیں
جِن کے بال کترے گئے ہوں اور جِن کو غُسل دِیا گیا ہو۔
جِن میں سے ہر ایک نے دو بچّے دِئے ہوں
اور اُن میں ایک بھی بانجھ نہ ہو۔
3تیرے ہونٹ قِرمزی ڈورے ہیں۔
تیرا مُنہ دِل فریب ہے۔
تیری کنپٹِیاں تیرے نِقاب کے نِیچے
انار کے ٹُکڑوں کی مانِند ہیں۔
4تیری گردن داؤُد کا بُرج ہے جو سِلاح خانہ کے لِئے بنا
جِس پر ہزار سِپریں لٹکائی گئی ہیں۔
وہ سب کی سب پہلوانوں کی سِپریں ہیں۔
5تیری دونوں چھاتِیاں دو تَواَم آہُو بچّے ہیں
جو سوسنوں میں چَرتے ہیں۔
6جب تک دِن ڈھلے اور سایہ بڑھے
مَیں مُر کے پہاڑ اور لُبان کے ٹِیلے پر جا رہُوں گا۔
7اَے میری پِیاری! تُو سراپا جمال ہے۔
تُجھ میں کوئی عَیب نہیں۔
8لُبناؔن سے میرے ساتھ اَے دُلہن!
تُو لُبناؔن سے میرے ساتھ چلی آ۔
اَمانہ کی چوٹی پر سے۔
سنِیر اور حرمُوؔن کی چوٹی پر سے۔
شیروں کی ماندوں سے
اور چِیتوں کے پہاڑوں پر سے نظر دَوڑا۔
9اَے میری پِیاری! میری زَوجہ! تُو نے میرا دِل لُوٹ لِیا۔
اپنی ایک نظر سے۔ اپنی گردن کے ایک طَوق سے
تُو نے میرا دِل غارت کر لِیا۔
10اَے میری پیاری! میری زَوجہ! تیرا عِشق کیا خُوب ہے!
تیری مُحبّت مَے سے زِیادہ لذِیذ ہے
اور تیرے عِطروں کی مہک ہر طرح کی خُوشبُو سے بڑھ کر ہے۔
11اَے میری زَوجہ! تیرے ہونٹوں سے شہد ٹپکتا ہے۔
شہد و شِیر تیری زُبان تلے ہیں۔
تیری پوشاک کی خُوشبُو لُبناؔن کی سی ہے۔
12میری پِیاری۔ میری زَوجہ ایک مُقفّل باغچہ ہے۔
وہ محفُوظ سوتا اور سر بمُہر چشمہ ہے۔
13تیرے باغ کے پَودے لذِیذ میوہ دار انار ہیں۔
مہندی اور سُنبُل بھی ہیں۔
14جٹاماسی اور زعفران۔
بیدمُشک اور دارچِینی اور لُبان کے تمام درخت۔
مُر اور عُود اور ہر طرح کی خاص خُوشبُو۔
15تُو باغوں میں ایک منبع
آبِ حیات کا چشمہ
اور لُبناؔن کا جھرنا ہے۔
عَورت کا خطاب
16اَے بادِ شِمال بیدار ہو! اَے بادِ جنُوب چلی آ!
میرے باغ پر سے گُذر تاکہ اُس کی خُوشبُو پَھیلے۔
میرا محبُوب اپنے باغ میں آئے
اور اپنے لذِیذ میوے کھائے۔
مَرد کا خطاب
1مَیں اپنے باغ میں آیا ہُوں اَے میری پِیاری!
میری زَوجہ!
مَیں نے اپنا مُر اپنے بلسان سمیت جمع کر لِیا۔
مَیں نے اپنا شہد چھتّے سمیت کھا لِیا۔
مَیں نے اپنی مَے دُودھ سمیت پی لی ہے۔
عَورت کا خطاب
اَے دوستو! کھاؤ پِیو۔
پِیو! ہاں اَے عزِیزو! خُوب جی بھر کے پِیو۔
چَوتھی غزل عَورت کا خطاب
2مَیں سوتی ہُوں پر میرا دِل جاگتا ہے۔
میرے محبُوب کی آواز ہے جو کھٹکھٹاتا اور کہتا ہے
مَرد کا خطاب
میرے لِئے دروازہ کھول میری محبُوبہ! میری پِیاری!
میری کبُوتری! میری پاکِیزہ!
کیونکہ میرا سر شبنم سے تر ہے۔
اور میری زُلفیں رات کی بُوندوں سے بھری ہیں۔
عَورت کا خطاب
3مَیں تو کپڑے اُتار چُکی اِب پِھر کَیسے پہنُوں؟
مَیں تو اپنے پاؤں دھو چُکی اب اُن کو کیوں مَیلا کرُوں؟
4میرے محبُوب نے اپنا ہاتھ سُوراخ سے اندر کِیا
اور میرے دِل و جِگر میں اُس کے لِئے جُنبِش ہُوئی۔
5مَیں اپنے محبُوب کے لِئے دروازہ کھولنے کو اُٹھی
اور میرے ہاتھوں سے مُر ٹپکا
اور میری اُنگلِیوں سے رقِیق مُر ٹپکا
اور قُفل کے دستوں پر پڑا۔
6مَیں نے اپنے محبُوب کے لِئے دروازہ کھولا
لیکن میرا محبُوب مُڑ کر چلا گیا تھا۔
جب وہ بولا تو مَیں بے حواس ہو گئی۔
مَیں نے اُسے ڈھُونڈا پر نہ پایا۔
مَیں نے اُسے پُکارا پر اُس نے مُجھے کُچھ جواب نہ دِیا۔
7پہرے والے جو شہر میں پِھرتے ہیں مُجھے مِلے۔
اُنہوں نے مُجھے مارا اور گھایل کِیا۔
شہر پناہ کے مُحافِظوں نے میری چادر مُجھ سے چِھین لی۔
8اَے یروشلِیم کی بیٹِیو! مَیں تُم کو قَسم دیتی ہُوں کہ
اگر میرا محبُوب تُم کو مِل جائے
تو اُس سے کہہ دینا کہ مَیں عِشق کی بِیمار ہُوں۔
عَورت کا خطاب
9تیرے محبُوب کو کِسی دُوسرے محبُوب پر کیا فضِیلت ہے؟
اَے عَورتوں میں سب سے جمیِلہ!
تیرے محبُوب کو کِسی دُوسرے محبُوب پر کیا فَوقِیت ہے
جو تُو ہم کو اِس طرح قَسم دیتی ہے؟
عَورت کا خطاب
10میرا محبُوب سُرخ و سفید ہے۔
وہ دس ہزار میں مُمتاز ہے۔
11اُس کا سر خالِص سونا ہے۔
اُس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوّے سی کالی ہیں۔
12اُس کی آنکھیں اُن کبُوتروں کی مانِند ہیں
جو دُودھ میں نہا کر لبِ دریا تمکنت سے بَیٹھے ہوں۔
13اُس کے رُخسار پُھولوں کے چمن اور بلسان کی
اُبھری ہُوئی کِیارِیاں ہیں۔
اُس کے ہونٹ سوسن ہیں جِن سے رقِیق مُر ٹپکتا ہے۔
14اُس کے ہاتھ زبرجد سے مُرصّع سونے کے حلقے ہیں۔
اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا کام ہے جِس پر نِیلم کے پُھول بنے ہوں۔
15اُس کی ٹانگیں کُندن کے پایوں پر سنگِ مرمر کے سُتُون ہیں۔
وہ دیکھنے میں لُبناؔن اور خُوبی میں رشکِ سرو ہے۔
16اُس کا مُنہ از بس شِیرِین ہے۔ ہاں وہ سراپا عِشق انگیز ہے۔
اَے یروشلِیم کی بیٹیو!
یہ ہے میرا محبُوب۔ یہ ہے میرا پِیارا۔
عَورت کا خطاب
1تیرا محبُوب کہاں گیا؟
اَے عَورتوں میں سب سے جمِیلہ!
تیرا محبُوب کِس طرف کو نِکلا
کہ ہم تیرے ساتھ اُس کی تلاش میں جائیں؟
عَورت کا خطاب
2میرا محبُوب اپنے بُوستان میں بلسان کی کِیارِیوں کی طرف گیا ہے
تاکہ باغوں میں چَرائے اور سوسن جمع کرے۔
3مَیں اپنے محبُوب کی ہُوں اور میرا محبُوب میرا ہے۔
وہ سوسنوں میں چَراتا ہے۔
پانچوِیں غزل مَرد کا خطاب
4اَے میری پِیاری! تُو تِرضہ کی مانِند خُوب صُورت ہے۔
یروشلِیم کی مانِند خُوش منظر
اور علَم دار لشکر کی مانِند مُہِیب ہے۔
5اپنی آنکھیں میری طرف سے پھیر لے
کیونکہ وہ مُجھے گھبرا دیتی ہیں۔
تیرے بال بکریوں کے گلّہ کی مانِند ہیں
جو کوہِ جِلعاد پر بَیٹھی ہوں۔
6تیرے دانت بھیڑوں کے گلّہ کی مانِند ہیں۔
جِن کو غُسل دِیا گیا ہو۔
جِن میں سے ہر ایک نے دو بچّے دِئے ہوں
اور اُن میں ایک بھی بانجھ نہ ہو۔
7تیری کنپٹِیاں تیرے نِقاب کے نِیچے
انار کے ٹُکڑوں کی مانِند ہیں۔
8ساٹھ رانیاں اور اسّی حرمیں
اور بے شُمار کُنوارِیاں بھی ہیں
9پر میری کبُوتری۔ میری پاکِیزہ بے نظِیر ہے۔
وہ اپنی ماں کی اِکلوتی۔
وہ اپنی والِدہ کی لاڈلی ہے۔
بیٹِیوں نے اُسے دیکھا اور اُسے مُبارک کہا۔
رانِیوں اور حرموں نے دیکھ کر اُس کی سِتایش کی۔
10یہ کَون ہے جِس کا ظہُور صُبح کی مانِند ہے
جو حُسن میں ماہتاب
اور نُور میں آفتاب
اور علَم دار لشکر کی مانِند مُہِیب ہے؟
11مَیں چلغوزوں کے باغ میں گیا
کہ وادی کی نباتات پر نظر کرُوں
اور دیکُھوں کہ تاک میں غُنچے
اور اناروں میں پُھول نِکلے ہیں کہ نہیں۔
12مُجھے ابھی خبر بھی نہ تھی کہ میرے دِل نے
مُجھے میرے اُمرا کے رتھوں پر چڑھا دِیا۔
عَورت کا خطاب
13لَوٹ آ لَوٹ آ اَے شُولِمیت!
لَوٹ آ لَوٹ آ کہ ہم تُجھ پر نظر کریں۔
عَورت کا خطاب
تُم شُولمِیت پر کیوں نظر کرو گے
گویا وہ دو لشکروں کا ناچ ہے؟
مَرد کا خطاب
1اَے امِیرزادی تیرے پاؤں جُوتِیوں میں کَیسے
خُوب صُورت ہیں!
تیری رانوں کی گولائی اُن زیوروں کی مانِند ہے
جِن کو کِسی اُستاد کارِیگر نے بنایا ہو۔
2تیری ناف گول پِیالہ ہے
جِس میں مِلائی ہُوئی مَے کی کمی نہیں۔
تیرا پیٹ گیہُوں کا انبار ہے
جِس کے گِرداگِرد سوسن ہوں۔
3تیری دونوں چھاتِیاں دو آہُو بچّے ہیں۔
جو تَواَم پَیدا ہُوئے ہوں۔
4تیری گردن ہاتھی دانت کا بُرج ہے۔
تیری آنکھیں بَیت ربِیم کے پھاٹک کے پاس حسبوؔن کے چشمے ہیں۔
تیری ناک لُبناؔن کے بُرج کی مِثال ہے
جو دمشق کے رُخ بنا ہے۔
5تیرا سر تُجھ پر کرمِل کی مانِند ہے
اور تیرے سر کے بال ارغوانی ہیں۔
بادشاہ تیری زُلفوں میں اسِیر ہے۔
6اَے محبُوبہ! عَیش و عِشرت کے لِئے
تُو کَیسی جمِیلہ اور جانفزا ہے!
7یہ تیری قامت کھجُور کی مانِند ہے
اور تیری چھاتِیاں انگُور کے گُچّھے ہیں۔
8مَیں نے کہا مَیں اِس کھجُور پر چڑھُوں گا
اور اِس کی شاخوں کو پکڑُوں گا۔
تیری چھاتِیاں انگُور کے گُچّھے ہوں
اور تیرے سانس کی خُوشبُو سیب کی سی ہو
9اور تیرا مُنہ بِہترِین شراب کی مانِند ہو
عَورت کا خطاب
جو میرے محبُوب کی طرف سِیدھی چلی جاتی ہے
اور سونے والوں کے ہونٹوں پر سے آہِستہ آہِستہ بہہ جاتی ہے۔
10مَیں اپنے محبُوب کی ہُوں
اور وہ میرا مُشتاق ہے۔
11اَے میرے محبُوب! چل ہم کھیتوں میں سَیر کریں
اور گاؤں میں رات کاٹیں۔
12پِھر تڑکے انگُورِستانوں میں چلیں
اور دیکھیں کہ آیا تاک شگُفتہ ہے اور اُس میں پُھول نِکلے ہیں
اور انار کی کلِیاں کِھلی ہیں یا نہیں۔
وہاں مَیں تُجھے اپنی مُحبّت دِکھاؤُں گی۔
13مردُم گیاہ کی خُوشبُو پَھیل رہی ہے
اور ہمارے دروازوں پر ہر قِسم کے تر و خُشک میوے ہیں
جو مَیں نے تیرے لِئے جمع کر رکھّے ہیں اَے میرے محبُوب!
1کاش کہ تُو میرے بھائی کی مانِند ہوتا
جِس نے میری ماں کی چھاتِیوں سے دُودھ پِیا!
مَیں تُجھے جب باہر پاتی تو تیری مچِھّیاں لیتی
اور کوئی مُجھے حقِیر نہ جانتا۔
2مَیں تُجھ کو اپنی ماں کے گھر میں لے جاتی۔
وہ مُجھے سِکھاتی۔
مَیں اپنے اناروں کے رس سے
تُجھے ممزُوج مَے پِلاتی۔
3اُس کا بایاں ہاتھ میرے سر کے نِیچے ہوتا
اور دہنا مُجھے گلے سے لگاتا۔
4اَے یروشلِیم کی بیٹِیو! مَیں تُم کو قَسم دیتی ہُوں
کہ تُم میرے پِیارے کو نہ جگاؤ نہ اُٹھاؤ
جب تک کہ وہ اُٹھنا نہ چاہے۔
چھٹی غزل عَورت کا خطاب
5یہ کَون ہے جو بیابان سے
اپنے محبُوب پر تکیہ کِئے چلی آتی ہے؟
عَورت کا خطاب
مَیں نے تُجھے سیب کے درخت کے نِیچے جگایا۔
جہاں تیری وِلادت ہُوئی۔
جہاں تیری والِدہ نے تُجھے جنم دِیا۔
6نگِین کی مانِند مُجھے اپنے دِل میں لگا رکھ اور تعوِیذ کی مانِند اپنے بازُو پر
کیونکہ عِشق مَوت کی مانِند زبردست ہے
اور غَیرت پاتال سی بے مُروّت ہے۔
اُس کے شُعلے آگ کے شُعلے ہیں
اور خُداوند کے شُعلہ کی مانِند۔
7سَیلاب عِشق کو بُجھا نہیں سکتا۔
باڑھ اُس کو ڈُبا نہیں سکتی۔
اگر آدمی مُحبّت کے بدلے اپنا سب کُچھ دے ڈالے
تو وہ سراسر حقارت کے لائِق ٹھہرے گا۔
عَورت کے بھائی
8ہماری ایک چھوٹی بہن ہے۔
ابھی اُس کی چھاتِیاں نہیں اُٹِھیں۔
جِس روز اُس کی بات چلے
ہم اپنی بہن کے لِئے کیا کریں؟
9اگر وہ دِیوار ہو
تو ہم اُس پر چاندی کا بُرج بنائیں گے
اور اگر وہ دروازہ ہو
تو ہم اُس پر دیودار کے تختے لگائیں گے۔
عَورت کا خطاب
10مَیں دِیوار ہُوں اور میری چھاتِیاں بُرج ہیں
اور مَیں اُس کی نظر میں سلامتی یافتہ کی مانِند تھی۔
مَرد کا خطاب
11بعل ہامُوؔن میں سُلیماؔن کا تاکِستان تھا۔
اُس نے اُس تاکِستان کو باغبانوں کے سپُرد کِیا
کہ اُن میں سے ہر ایک اُس کے پَھل کے بدلے ہزار مِثقال چاندی ادا کرے۔
12میرا تاکِستان جو میرا ہی ہے میرے سامنے ہے۔
اَے سُلیماؔن! تُو تو ہزار لے
اور اُس کے پَھل کے نِگہبان دو سَو پائیں۔
13اَے بُوستان میں رہنے والی!
رفِیق تیری آواز سُنتے ہیں۔
مُجھ کو بھی سُنا۔
عَورت کا خطاب
14اے میرے محبُوب! جلدی کر
اور اُس غزال یا آہُو بچّے کی مانِند ہو جا
جو بلسانی پہاڑیوں پر ہے۔