مَرد کا خطاب
1مَیں اپنے باغ میں آیا ہُوں اَے میری پِیاری!
میری زَوجہ!
مَیں نے اپنا مُر اپنے بلسان سمیت جمع کر لِیا۔
مَیں نے اپنا شہد چھتّے سمیت کھا لِیا۔
مَیں نے اپنی مَے دُودھ سمیت پی لی ہے۔
عَورت کا خطاب
اَے دوستو! کھاؤ پِیو۔
پِیو! ہاں اَے عزِیزو! خُوب جی بھر کے پِیو۔
چَوتھی غزل عَورت کا خطاب
2مَیں سوتی ہُوں پر میرا دِل جاگتا ہے۔
میرے محبُوب کی آواز ہے جو کھٹکھٹاتا اور کہتا ہے
مَرد کا خطاب
میرے لِئے دروازہ کھول میری محبُوبہ! میری پِیاری!
میری کبُوتری! میری پاکِیزہ!
کیونکہ میرا سر شبنم سے تر ہے۔
اور میری زُلفیں رات کی بُوندوں سے بھری ہیں۔
عَورت کا خطاب
3مَیں تو کپڑے اُتار چُکی اِب پِھر کَیسے پہنُوں؟
مَیں تو اپنے پاؤں دھو چُکی اب اُن کو کیوں مَیلا کرُوں؟
4میرے محبُوب نے اپنا ہاتھ سُوراخ سے اندر کِیا
اور میرے دِل و جِگر میں اُس کے لِئے جُنبِش ہُوئی۔
5مَیں اپنے محبُوب کے لِئے دروازہ کھولنے کو اُٹھی
اور میرے ہاتھوں سے مُر ٹپکا
اور میری اُنگلِیوں سے رقِیق مُر ٹپکا
اور قُفل کے دستوں پر پڑا۔
6مَیں نے اپنے محبُوب کے لِئے دروازہ کھولا
لیکن میرا محبُوب مُڑ کر چلا گیا تھا۔
جب وہ بولا تو مَیں بے حواس ہو گئی۔
مَیں نے اُسے ڈھُونڈا پر نہ پایا۔
مَیں نے اُسے پُکارا پر اُس نے مُجھے کُچھ جواب نہ دِیا۔
7پہرے والے جو شہر میں پِھرتے ہیں مُجھے مِلے۔
اُنہوں نے مُجھے مارا اور گھایل کِیا۔
شہر پناہ کے مُحافِظوں نے میری چادر مُجھ سے چِھین لی۔
8اَے یروشلِیم کی بیٹِیو! مَیں تُم کو قَسم دیتی ہُوں کہ
اگر میرا محبُوب تُم کو مِل جائے
تو اُس سے کہہ دینا کہ مَیں عِشق کی بِیمار ہُوں۔
عَورت کا خطاب
9تیرے محبُوب کو کِسی دُوسرے محبُوب پر کیا فضِیلت ہے؟
اَے عَورتوں میں سب سے جمیِلہ!
تیرے محبُوب کو کِسی دُوسرے محبُوب پر کیا فَوقِیت ہے
جو تُو ہم کو اِس طرح قَسم دیتی ہے؟
عَورت کا خطاب
10میرا محبُوب سُرخ و سفید ہے۔
وہ دس ہزار میں مُمتاز ہے۔
11اُس کا سر خالِص سونا ہے۔
اُس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوّے سی کالی ہیں۔
12اُس کی آنکھیں اُن کبُوتروں کی مانِند ہیں
جو دُودھ میں نہا کر لبِ دریا تمکنت سے بَیٹھے ہوں۔
13اُس کے رُخسار پُھولوں کے چمن اور بلسان کی
اُبھری ہُوئی کِیارِیاں ہیں۔
اُس کے ہونٹ سوسن ہیں جِن سے رقِیق مُر ٹپکتا ہے۔
14اُس کے ہاتھ زبرجد سے مُرصّع سونے کے حلقے ہیں۔
اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا کام ہے جِس پر نِیلم کے پُھول بنے ہوں۔
15اُس کی ٹانگیں کُندن کے پایوں پر سنگِ مرمر کے سُتُون ہیں۔
وہ دیکھنے میں لُبناؔن اور خُوبی میں رشکِ سرو ہے۔
16اُس کا مُنہ از بس شِیرِین ہے۔ ہاں وہ سراپا عِشق انگیز ہے۔
اَے یروشلِیم کی بیٹیو!
یہ ہے میرا محبُوب۔ یہ ہے میرا پِیارا۔